من کے مندر میں میں تیری تصویر کی پوجا کروں ” اس قسم کا شعر پڑھنے والے کا شرعی حکم کیا ہے ؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ ذیل میں کہ
قوّال نے پیر صاحب کی طرف اشارہ کرکے یہ شعر پڑھا
من کے مندر میں میں تیری تصویر کی پوجا کروں
تو مجھے دیکھے یا نہ دیکھے میں تجھے دیکھا کروں
کیا یہ شعر درست ہے اگر درست نہیں ہے تو قوال اور پیر صاحب پر کیا حکم شرع ہے براۓ کرم جواب مع حوالہ عنایت فرمائیں
کرم نوازش ہوگی
سائل ۔ نور محمد رضوی ، کھرگون ، ایم پی
۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
برصدق سائل مذکورہ شعر کا پہلا مصرع بظاہر کفریہ ہے کہ اس میں غیر خدا کی عبادت و پوجا کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے ، یہ شعر ویسا ہی جیساکہ یہ شعر ہےکہ :
کسی پتھر کی مورت سے محبت کا ارادہ ہے
پرستش کی تمنا ہے عبادت کا ارادہ ہے
جس کے بارے میں سراج الفقہاء علامہ مفتی نظام الدین رضوی مصباحی دام ظلہ نے فرمایا کہ جو شخص اس کو اچھا سمجھ کر پڑھتا ہے وہ غیر اللہ کو عبادت کا حقدار سمجھتا ہے جو کھلے طور پر لَا اِلٰهَ اِلَّا اللَّهُ کا رد ہے
*(روزمرہ بولے جانے والے کفریہ کلمات ، ص۱۳,۱۴ ، مطبوعہ جمیعت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی)*
لیکن چونکہ اردو زبان میں لفظ ” مندر ” اور لفظ ” پوجا ” معبد و پرستش گاہ اور عبادت ، پرستش ، بندگی کے علاوہ گھر ، مکان ، محل اور سیوا و خدمت کے معنی میں بھی آتا ہے ، فلہذا ان معانی کے احتمال کی وجہ سے قائل کی مراد معلوم ہونا ضروری ہے
اگر قائل کی مراد غیر خدا کی عبادت و پوجا ہی ہے تو چونکہ غیر خدا کی عبادت و پرستش کا عزم و ارادہ کفر ہے فلہذا شعر کا کفریہ ہونا متعین ہوجائےگا اور ایسی صورت میں قائل کافر و مرتد ہوگا
چنانچہ امام علاؤالدین علی بن خلیل طرابلسی حنفی متوفی ۸۴۴ھ فرماتے ہیں
*” اذا عزم على الكفر ولو بعد مائة سنة يكفر فى الحال “*
*(معین الحکام ، الباب الخمسون في القضاء بكلمات الكفر ، ص۲۰۲ ، مطبوعہ المطبعۃ المیمنۃ مصر ، ۱۳۱۰ھ)*
یعنی ، جب کسی نے کفر کا ارادہ کیا تو چاہے سو برس کے بعد ہو وہ فی الحال کافر ہوجائےگا
اور امام أحمد بن محمد المعروف بابن الشحنة حنفي متوفی ۸۸۲ھ فرماتے ہیں
*” (ومنها) اذا عزم على الكفر ولو بعد مائة سنة يكفر في الحال “*
*(لسان الحکام ، الفصل السابع والعشرون ، ص ۵۶ ، مطبوعہ البابی الحلبی قاہرہ ، الطبعۃ الثانیۃ: ۱۳۹۳ھ)*
یعنی ، کفریات میں سے یہ بھی ہے کوئی کفر کا ارادہ کرے چاہے سو سال بعد کا ہی کیوں نہ ہو وہ فی الحال کافر ہوجائےگا
اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں
*” عزم کفر فی الحال کفر ہے “*
*(فتاوی رضویہ ، کتاب السیر ، رقم المسئلۃ: ۵۱ ، ۱۵/۲۹۴ ، رضافاؤنڈیشن لاہور)*
اور جوحکم کہنے والے کا ہے ، وہی حکم قائل کی مراد جانتے ہوئے پڑھنے والے اور سن کر پسند کرنے والوں کا بھی ہے
چنانچہ امام عمر بن محمد سنامی حنفی متوفی قرن ثامن فرماتے ہیں
*” أن الرضا بكفر الغير إنما يكون كفرا إذا كان يستجيز الكفر ويستحسنه “*
*(نصاب الاحتساب ، الباب التاسع عشر فی الاحتساب علی من یتکلم بکلمات الکفر ، ص۱۹۵ ، مکتبۃ الطالب الجامعی مکۃ المکرمۃ)*
یعنی ، دوسرے کے کفر پر رضامندی اس وقت کفر ہوجاتی ہے جب اس کی اجازت دے یا اس کو اچھا سمجھے
اور اگر قائل کی وہ مراد نہیں بلکہ مندر سے گھر ، مکان ، محل اور پوجا سے سیوا و خدمت مراد لیا ہے ( اور ایک مسلمان سے اسی کی توقع ہے ) تو کفر لازم نہیں مگر ایسے الفاظ سے اجتناب ضروری ہے
چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں
*” مجرد ایہام اللفظ ما لایجوز کاف فی المنع “*
*(ردالمحتار ، ۶/۳۹۷ ، دارالفکر بیروت)*
یعنی ، محض عدم جواز کا ایہام ہی منع کیلئے کافی ہوتا ہے
خلاصہ کلام یہ کہ سوال میں مذکور شعر کا ظاہر کفر ہے مگر دوسرے معنی کا بھی احتمال ہونے کی وجہ سے حکم کفر نہیں دیا جائےگا جب تک کہ قائل کفریہ مراد ظاہر نہ کردے
فلہذا ایسی صورت میں ہر دو معنی کے احتمال کے سبب قائل و قاری و سامعین کو چاہئے کہ توبہ کریں اور احتیاطاً تجدید ایمان و نکاح و بیعت بھی
چنانچہ علامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ فرماتے ہیں
*” وما فيه خلاف يؤمر بالاستغفار والتوبة وتجديد النكاح “*
*(الدرالمختار ، کتاب الجہاد ، باب المرتد ، ص۳۴۸ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۳ھ)*
یعنی ، جن الفاظ کے کفریہ ہونے میں اختلاف ہو ان میں استغفار ، توبہ اور تجدید نکاح کا حکم دیا جائے گا
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی فرماتے ہیں
*” قوله : (والتوبة) أي تجديد الإسلام قوله : ( وتجديد النكاح) أي احتياطاً كما في الفصول العمادية “*
*(ردالمحتار ، کتاب الجہاد ، باب المرتد ، ۶/۳۹۱ ، دارعالم الکتب ریاض)*
یعنی ، توبہ یعنی تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا احتیاطاً حکم دیا جائے گا جیساکہ فصول العمادیہ میں ہے
*ھذا ماظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی*
*واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب*
*کتبہ ۔۔۔*
*محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ*
*شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند*
*۷/ جمادی الاولی ۱۴۴۵ھ مطابق ۲۲/ نومبر ۲۰۲۳ء*
الجواب صحیح والمجیب نجیح عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب مصیب فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
الجواب صحیح
ملک محمد کاشف مشتاق النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الغوثیۃ کاشی فور اتراکھنڈ
الجواب الصحیح فقط جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
تاریخ التصحیح: ۲۳/۱۱/۲۰۲۳ء