سچ جاننے کے لیے محنت کی ضرورت
اول(1)الجزیرہ ٹی وی کا اعتراف ہے کہ حالیہ اسرائیل فلسطین جنگ کی مدت میں سب سے زیادہ جھوٹی خبریں بھارت کے گودی میڈیا نے پھیلایا ہے۔آج فلسطین میں جنگ بندی ہو چکی ہے اور غزہ کے مختلف علاقوں سے یہودی فوج اپنے جنگی ٹینکوں کے ساتھ اسرائیل واپس جا رہی ہے،لیکن بھارت کے گودی میڈیا ابھی بھی یہی خبر نشر کر رہا ہے کہ غزہ پٹی میں جنگ جاری ہے۔در اصل گودی میڈیا جھوٹی خبریں پھیلا کر اپنے جیجا مسٹر نتن یاہو کے سر پر فتح کا تاج رکھنا چاہتا ہے،لیکن حزب اللہ ودیگر عرب ملیشیا نے یہودیوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔
امریکہ کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو امریکہ کو عرب دنیا سے اسی طرح ذلیل وخوار کر بھاگنا پڑے گا جیسے وہ افغانستان سے بھاگا تھا،لہذا امریکہ جنگ بندی کے لئے حکمت عملی اپنا رہا ہے۔
دوم(2) اسرائیل نے حالیہ جنگ میں عام فلسطینی شہریوں کو ہلاک کیا،تاکہ فلسطینی عوام حماس کے خلاف ہو جائیں،لیکن ایسا نہ ہو سکا،بلکہ اسرائیلی منشا کے برخلاف بہت سے فلسطینی حماس میں شریک ہونے لگے۔
دوسری جانب حماس وحزب اللہ کے خوف سے بہت سے اسرائیلی فوجی اپنی فوج سے بھاگ گئے۔انہیں چاروں طرف موت نظر آنے لگی تھی۔غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجیوں نے حماس کا مقابلہ بہت کم کیا،وہ عام شہریوں کو ہلاک کرتے رہے اور اسپتالوں،اسکولوں،مسجدوں، رہائشی مکانوں اور بے گھر فلسطینیوں کے کیمپوں پر حملہ کرتے رہے اور اسرائیلی جنگی جہاز عوامی مقامات پر بمباری کرتا رہا۔
حالیہ جنگ میں اسرائیل کا بھی بہت نقصان ہوا ہے۔اس کے بہت سے فوجی مارے گئے۔ٹینک اور جہاز تباہ ہوئے۔اسرائیل کے بہت سے علاقے تباہ ہوئے۔بمباری میں عام شہری بھی ہلاک ہوئے۔اسرائیل نے حماس سے مقابلہ ہی نہیں کیا۔اسرائیل عام شہریوں پر حملہ کرتا رہا،لہذا دنیا کے اکثر ممالک اسرائیل کے خلاف ہو گئے اور دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے ہوئے۔
حماس نے گوریلا جنگ کا طریقہ اختیار کیا اور بہت سے اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کیا،اس کے فوجی ٹینکوں اور فوجی ہیلی کاپٹرس کو تباہ کیا۔اسرائیلی شہروں پر راکٹ اور میزائیل سے حملے کرتا رہا۔
اسرائیل نے بمباری کر کے شمالی غزہ کو تباہ کر دیا تھا۔ہزاروں عام شہریوں کو ہلاک کر چکا تھا۔اس کے بعد اسرائیلی علاقوں سے متصل جنوبی غزہ میں بھی جہازوں سے پرچیاں گرا چکا تھا کہ یہ علاقے خالی کرو،ورنہ بمباری ہو گی۔اس کے بعد اسرائیل نے کچھ بمباری بھی کی۔یہ دیکھ کر حزب اللہ نے کہا کہ ہم آ رہے ہیں۔اس کے بعد حزب اللہ نے لبنان سے اسرائیلی علاقوں پر میزائیل وراکٹ داغنے شروع کئے اور اسرائیل کے فوجی اڈوں اور فوجی تنصیبات کو تہس نہس کرنا شروع کر دیا۔اسی درمیان یمن کے ملیشیا نے ایک بحری جہاز پر قبضہ کر لیا۔مختلف علاقوں میں امریکہ کے فوجی ٹھکانوں پر عرب ملیشیا نے حملہ شروع کر دیا۔یہ سب کچھ دیکھ کر جنوبی غزہ پر بمباری کی رفتار سست پڑ گئی،ورنہ اسرائیل جنوبی غزہ میں بھی شمالی غزہ کی طرح بمباری کرتا۔
یہ سب کچھ دیکھ کر امریکی اشارہ پر عرب ممالک چین و روس ودیگر ممالک گئے اور جنگ بندی کی باتیں ہونے لگیں،ورنہ سعودیہ میں تو فلسطین کے لئے دعا مانگنا بھی جرم تھا۔اگر عرب ممالک اسرائیل سے تعلقات توڑ لیتے تو اسرائیل اس قدر ظلم وستم سے باز رہتا۔اسرائیل تو دیکھ رہا ہےکہ ہم فلسطینی مسلمانوں کو ہلاک بھی کرتے ہیں اور عرب ممالک ہمارے ساتھ دوستی بھی نبھاتے ہیں۔یہ سب کچھ دیکھ کر اسرائیل جری ہو چکا ہے،لیکن عرب ملیشیا(غیر سرکاری فوجی گروپس)نے اسرائیل وامریکہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔
سوم(3)یہودیوں کا خیال ہے کہ ہر فلسطینی حماس کے ساتھ ہے،لہذا ہر فلسطینی قتل وہلاکت کا مستحق ہے۔اگر یہ نظریہ درست ہے تو ہر یہودی اسرائیل کے ساتھ ہے،لہذا ہر یہودی بھی قتل کا مستحق ہونا چاہیے،خواہ وہ فوجی ہو یا عام شہری۔
جب دو ملکوں میں جنگ ہوتی ہے تو ہر ملک کے عوام اپنے ملک کے ساتھ ہوتے ہیں،لیکن اس کی وجہ سے عام شہریوں پر بمباری نہیں کی جاتی ہے،نہ ہی عام شہریوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔
چہارم(4)اگر جنگ بندی کی مدت میں اقوام متحدہ اور عرب ممالک نے مستقل جنگ بندی کی کوشش کی تو ممکن ہے کہ مستقل جنگ بندی ہو جائے،ورنہ انجام انتہائی دردناک ہو گا۔دونوں طرف بے تحاشہ ہلاکت ہو گی۔اسرائیل کے اندرونی حالات بھی خراب ہیں۔ممکن ہے کہ نتن یاہو کو اپنے عہدہ سے مستعفی ہونا پڑے۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:24:نومبر 2023