کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا شرک ہے؟
کیا صحابہ کرام نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کی ہے یا نہیں؟
مسئلہ: از محمد عبدالوارث اشرفی الیکٹرک دوکان مدینہ مسجد ریتی روڈ گورکھپور
زید کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنا شرک ہے اسی لئے صحابہ نے حضور کی تعظیم نہیں کی ہے لہٰذا اگر حضور کی تعظیم جائز ہے‘ اور صحابہ نے حضور کی تعظیم کی ہے تو قرآن و حدیث کے حوالے سے تحریر فرمائیں؟
الجواب: حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کو شرک کہنا وہابیوں دیوبندیوں کی جہالت ہے کہ حضور کی تعظیم شرک نہیں ہے بلکہ واجب ولازم ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وتعزروہ توقروہ یعنی رسول کی تعظیم و توقیر کرو۔ (پ ۲۶ ع ۹) حضرت قاضی عیاض علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: فاوجب اللّٰہ تعالٰی تعزیرہ و توقیرہ والزم الکرامہ وتعظیمہ یعنی خداتعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت و توقیر کو واجب قرار دیا اور ان کی تکریم و تعظیم کو لازم فرمایا
(شفا شریف جلد ۲، ص ۲۸)
یعنی آیت کریمہ میں سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کا جو حکم دیا گیا ہے وہ واجب ولازم ہے‘ اور زید کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ صحابۂ کرام نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعظیم نہیں کی ہے اس لئے کہ صحابہ نے حضور کی بے انتہا تعظیم کی ہے حدیث شریف میں ہے کہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے حدیبیہ کے مقام پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے صلح کی گفتگو کرنے کے لئے آئے اس موقع پر صحابہ کو حضور کی تعظیم کرتے ہوئے جو انہوں نے دیکھا تھا واپسی کے بعد مکہ شریف کے کافروں سے ان لفظوں میں انہوں نے بیان کیا:
واللّٰہ لقد وفدت علی الملوک ووفدت علی قیصر وکسریٰ والنجاشی واللّٰہ ان رأیت ملکا قط یعظمہ اصحابہ ما یعظمہ اصحاب محمد محمدا۔ واللّٰہ ان تخنم نخامۃ الاوقعت فی کف رجل منھم۔ فدلک بھا وجھہ وجلدہ واذا امرھم ابتدروا امرہ واذا توضاء کادوا یقتتلون علٰی وضوئہ وان اتکلم خفضوا اصواتھم عندہ وما یحدون النظر تعظیما لہ۔
یعنی قسم خدا کی! میں بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم !میں نے کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس طرح اس کی تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد کے ساتھی ان کی تعظیم کرتے ہیں خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا تھوک کسی نہ کسی آدمی کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے‘ اور جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے‘ اور جب وہ وضو کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ وضو کا مستعمل پانی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور جب ان کی بارگاہ میں بات کرتے ہیں تو اپنی آواز کوپست رکھتے ہیں اور تعظیماً ان کی طرف آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے۔ (بخاری شریف جلد اوّل ص ۳۷۹)
اور بخاری و مسلم میں حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا
: رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ بمکۃ وھوبالا بطح فی قبۃ حمراء من ادم ورأیت بلا لااخذ وضوء رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ورایت الناس یبتدرون ذٰلک الوضوء فمن اصاب منہ شیئا تمسح بہ ومن لم یصب منہ اخذ من بلل ید صاحبہ۔
یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ شریف کے ابطح مقام میں دیکھا جبکہ وہ چمڑے کے سرخ خیمہ میں تشریف فرما تھے اور میں نے حضرت بلال کو دیکھا کہ انہوں نے حضور کے وضو کا مستعمل پانی ایک لگن میں لیا اور لوگوں کو دیکھا کہ اس پانی کی طرف دوڑ رہے ہیں تو جس کو اس میں سے کچھ حاصل ہو گیا اس نے اپنے چہرہ وغیرہ پر اس کو مل لیا اور جس نے انہیں پایا تو اس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری لے لی۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ ص ۷۴)
ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہو گیا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرطرح سے بے انتہا تعظیم کرتے تھے۔ وہابی دیوبندی جو نہایت ادنیٰ درجہ کی تعظیم کھڑے ہونے کوبھی شرک کہتے ہیں۔ خداعزوجل انہیں صحابۂ کرام کے عقیدے اور ان کے ایمان و عمل سے ہدایت حاصل کرنے کی توفیق رفیق بخشے۔ آمین۔
حرمتہ النبی الکریم علیہ وعلٰی اٰلہ افضل الصلوات واکمل التسلیما۔
کتبہ:جلال الدین احمد امجدی
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۴۴/۱۴۳)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند