اب سفر عمرہ کا پرچار بھی خوب ہونے لگا ہے
از قلم :جانشین نسیم ملت محمد طاہرالقادری کلیم فیضی بستوی _*, سربراہ اعلیٰ مدرسہ
انوار الاسلام قصبہ سکندرپور ضلع
بستی یوپی ۔28_11_2023…….
————————————————————–
_*”پہلے کے دور میں* حج پر جانے والے خوش نصیب حضرات حجاج کرام ان سے ان سے بتاتے اور کہتے تھے کہ میں حج کرنے جارہا ہوں اور لوگوں سے معافی طلب کرتے تھے کہ کہیں کسی شخص کا میرے اوپر کوئی حق نہ ہو یا کسی کو میری ذات سے کوئی تکلیف نہ پہنچی ہو ،کیونکہ “حج بیت اللہ” کرنے سے بفضلہ تعالیٰ سارے گناہ تو معاف ہوجاتے ہیں لیکن _*”حقوق العباد نہیں معاف ہوتے جب تک بندہ نہ معاف کردے اس لئے “حج بیت اللہ شریف*_ کو جانے والے سعادت مند لوگ اپنے گھر کے پریوار اور خاندان کے تمام افراد، دوست و احباب و رشتہ دار وغیرہ سے معافی مانگ لیتے تھے ،
اور “حج جیسے عظیم فریضے کی ادائیگی کرنے کے لئے عازم سفر ہونے سے قبل محفل میلاد رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )منعقد کرتے اور اپنے متعلقین کی دعوت کرکے کھلاتے پلاتے اور روتے ہوئے سب سے معافی مانگتے اور رخصت ہوجاتےتھےجس میں دکھاوا یا پرچار کی کوئی بات نہیں ہوتی تھی ،۔۔۔
لیکن آج کل میں دیکھتا ہوں کہ جتنا پر چار اور پبلک سٹی” پہلے _*”حاجی* لوگوں کا نہیں ہوتا تھا اس سے کہیں زیادہ اب _*”عمرہ کرنے والوں کا ہوتا ہے*_ ،
“عمرہ کرنا فرض نہیں بلکہ سنت اور عمل مستحب ہے اس لئے اس کو خاموشی سے کرنا زیادہ بہتر ہے _*” حج*_ چونکہ صاحب استطاعت پر فرض ہوتا ہے اس کو پورا کرنے پر لوگوں کا جاننا ضروری ہے(ریا کی آمیزش بھی نہ ہو) تاکہ اس شخص کے متعلق کوئی بد گمان نہ ہو کہ اتنی دولت اور پیسہ ہوتے ہوئے بھی فلاں شخص نے” حج نہیں کیا_____________،
میں نے دیکھا ہے کہ “شہرممبئی کے اکثر صاحبان ثروت( سیٹھ) رمضان المبارک میں
“عمرہ کے لئے چلے جاتے ہیں اور ان کے گھر اور احباب کے علاوہ شاید کوئی نہیں جان پاتا ہے _ہاں جب ان سے ملاقات کرنی ہوتی ہے تب کہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو “عمرہ کرنے گئے ہوئے ہیں ،
لیکن ہمارے اتر پردیش میں سب زیادہ _*”مولوی حضرات عمرے* کا پرچار کرتے ہیں سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ اس کا مفاد کیا ہے،?
صحیح تو یہ ہے کہ اس میں” ریا وسمعہ “کی شمولیت ہوجاتی ہے ،
اسی سے متعلق ایک واقعہ ملاحظہ کریں”_________”مرد حق حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کتابوں میں پڑھا ہےکہ ایک بار ایک شخص نے “حج کی واپسی پر آپ کو دعوت طعام پیش کی اور آپ نے دعوت قبول فرمالی:
لیکن جب آپ کھانے کے لئے میز بان حاجی کے در دولت پر تشریف لے گئے اور دسترخوان لگا تو حاجی صاحب نے اپنے نوکر سے کہا کہ کھانا اس برتن میں نکلوانا جو پہلی بار “حج کے لئے گیا تھا تو لایا تھا ،
“حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ
نے اس کی بات سنی تو فرمایا کہ اے شخص تونے ایک ہی جملے میں دونوں حج کا ثواب ضائع کردیا اور
تو مفلس ہوگیا __!
مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے ظاہر کرنےاور مہمانوں کو بتانے کے لئے کہا تھا تاکہ لوک جان لیں کہ میں نے دوبار حج” کیا ہے ،
آج کل حج نہیں بلکہ “عمرہ کرنے اور
_*”زیارت مقامات مقدسہ و حرمین شریفین* اور” خدا ورسول کی بارگاہ میں حاضری کےلئے جانا ہوتا ہے تب بھی لوگ خوب پرچار کرڈالتے ہیں ایسے لوگوں کو” حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس واقعے سے عبرت حاصل کرنے کی ضرورت ہے ،
میرا تو خیال یہ ہے کہ خاموشی سے
چلا جائے اور لوگ جانتے ،جانتے تب جانیں یا واپس آنے کے بعد جانیں تو چلے گا ،
” عمرہ کرنے جانے والوں کا اس قدر پرچار دیکھ کر اور سن کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جیسے
“حصول نیکی اور سعادت کی نیت نہیں ہے بلکہ دکھاوا اور نام و نمود کے لئے لوگ عمرہ کرتے ہیں ،
اور یہ طور و طریقہ ارباب علم و شعور میں کچھ زیادہ ہی پایا جاتا ہے یہ بھی تکلیف مالا یطاق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ “عمرہ کو جانے والے آغاز سفر سے ایک دو دن پہلے اپنے متعلقین کو کھانا کھلانے کا اہتمام کرتے ہیں اور بہت سے دوست و احباب اور رشتہ دار وں
کو دعوت دے کرکھلاتےہیں اور پروگرام بھی کرتے ہیں یہ کام اچھا تو ہے مگر یہ ایکسٹرا خرچ ہے اس کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ،
اس لئے بہتر یہ ہے کہ عبادت والے کام کا پرچار نہ کیا جائے ،اس سے عبادت کا ثواب تو ضائع ہی ہوجاتا ہے مزید برآں” علماء وفقہاء نے *_”ریا* کو شرک خفی بتا یا ہے ،
——————————-//