حدیث استوینا کبر کا مطلب کیا ہے؟
اس کے متعلق مفصل و مدلل جواب ملاحظہ فرمائیں
مسئلہ: از سیّد نذیر احمد رفاعی شاہ نور (کرناٹک)
مفتی اسلام حضرت علامہ جلال الدین احمد صاحب قبلہ امجدیؔ مدظلہ العالی! السلام علیکم
عرض یہ ہے کہ استقامت ڈائجسٹ پانچویں سال کے تیسرے شمارے میں اقامت کے بعد صفوں کی درستگی کا اہتمام ثابت کرنے کے بارے میں آپ نے ابوداؤد شریف کی ایک حدیث لکھی ہے جو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ تکبیر تحریمہ کہتے کہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ صف سے باہر نکالا ہوا تھا تو حضور نے فرمایا: خدا کے بندو! اپنی صفوں کو سیدھی کرو۔ حدیث شریف کے اصل الفاظ یہ ہیں:
خرج یوما فقام حتی کادان یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباداللہ لتسون صفوفکم (مشکوٰۃ شریف ص ۹۷)
تکبیر کے وقت حی علی الصلاۃ۔ حی علی الفلاح پر اٹھنے اور صفوں کی درستگی کے بعد امام کے تکبیر تحریمہ کہنے کے مسئلے میں حضرت کے مفصل مضمون سے ہم لوگ خوب مطمئن ہو گئے تھے لیکن ایک شخص کہتا ہے کہ حدیث مذکور کا مطلب یہ ہے کہ ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ تکبیر کہی جائے آپ نے ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا تھا جیسا کہ مشکوٰۃ شریف مترجم جلد اوّل ص ۲۴۰ مطبوعہ کراچی پاکستان میں ہے‘ اور اسی مشکوٰۃ شریف مترجم جلد اوّل ص ۲۴۳ میں دوسری حدیث شریف یوں ہے: فاذا استوینا کبر۔ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب صفیں درست ہو جاتیں تو تکبیر کہتی جاتی‘ تو ان احادیث کریمہ سے اقامت کے بعد صفوں کی درستگی کا اہتمام ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے اور صفیں درست ہو جاتیں اس کے بعد تکبیر کہی جاتی۔ شخص مذکور نے حدیثوں کا ترجمہ دکھا کر ہمیں شبہ میں ڈال دیا لہٰذا حضرت اس اعتراض کا اطمینان بخش جواب استقامت ڈائجسٹ میں شائع فرما دیں تاکہ شبہ دور ہو جائے عین کرم ہو گا۔
الجواب: پہلی حدیث مذکور ابوداؤد شریف کی نہیں ہے بلکہ مسلم شریف کی ہے۔ کتاب کا نام نقل کرنے میں غلطی ہو گئی ہے تصحیح کر لیں۔ اقامت کے بعد بھی صفوں کی درستگی کے اہتمام میں آپ کو اس لئے شبہہ پیدا ہوا کہ مخالف نے اپنا غلط مسئلہ صحیح ثابت کرنے کے لئے حدیث کا ترجمہ بدل دیا ہے‘ اور ان لوگوں نے اپنے غلط عقائد و نظریات کو ثابت کرنے کے لئے نہ معلوم کتنی آیتوں اور حدیثوں کا ترجمہ بدل کر لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اردو داں حضرات کو ان کے ترجموں کے مطالعہ سے بچنا لازم ہے۔ حدیثوں کے صحیح ترجمہ کے لئے ہماری کتاب انوار الحدیث کو پڑھیں جس میں ۵۵۴ حدیثیں اصل عربی متن کے ساتھ درج ہیں اور خاص کر مشکوٰۃ شریف کی حدیثوں کا صحیح ترجمہ اور مفہوم سمجھنا چاہیں تو حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خاں صاحب نعیمیؔ علیہ الرحمۃ والرضوان کی تصنیف مرأۃ للناجیح کا مطالعہ کریں۔ مخالف نے فقام حتی کا دان یکبر کا جو ترجمہ کیا ہے کہ ’’حضور نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ تکبیر کہی جائے‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضور پہلے نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے اس کے بعد تکبیر کہی جاتی تھی‘ تو یہ ترجمہ غلط ہے‘ اور صحیح ترجمہ یہ ہے کہ حضور نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ تکبیر تحریمہ کہتے جیسا کہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ترجمہ کیا: ای قارب ان یکبر تکبیرۃ الاحرام‘ اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشعۃ اللمعات میں ترجمہ کیا: ’’تاآنکہ نزدیک بود کہ تکبیر بر آورد برائے احرام‘‘ مگر چونکہ صحیح ترجمہ سے مخالف کے نظریہ کی تائید نہیں ہوتی تھی اس لئے اس نے حدیث کا ترجمہ بدل دیا۔ اسی طرح مخالف نے دوسری حدیث فاذا استوینا کبر کا جو ترجمہ کیا ہے کہ ’’جب صفیں درست ہو جاتیں تو تکبیر کہی جاتی‘‘ اس کا واضح مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کرام پہلے صفیں درست کر لیتے تھے اس کے بعد تکبیر کہی جاتی تھی‘ تو یہ بھی غلط ہے‘ اور صحیح ترجمہ یہ ہے کہ جب صفیں درست ہو جاتیں تو حضور تکبیر تحریمہ کہتے جیسا کہ ملا علی قاری نے مرقاۃ میں تحریر فرمایا:
فاذا استوینا کبرای الاحرام قال ابن الملک یدل علیٰ ان السنۃ للامام ان یسوی الصفوف ثم یکبرا ھ۔
یعنی جب صحابہ کرام کی صفیں سیدھی ہو جاتیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہتے۔ ابن الملک نے فرمایا کہ اس حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ امام کے لئے سنت یہ ہے کہ پہلے وہ صفوں کو درست کرے پھر اس کے بعد تکبیر تحریمہ کہے‘ اور شیخ محقق نے اشعۃ اللمعات میں فاذا استوینا کبر کا ترجمہ فرمایا: ’’پس چوں برابر می شدیم و خوب می استادیم درنماز تکبیر برآورد برائے احرام یعنی جب صحابہ کرام خوب برابر سیدھے کھڑے ہو جاتے تو حضور تکبیر تحریمہ کہتے‘ مگر اس حدیث شریف کے صحیح ترجمہ سے بھی مخالف کا نظریہ ثابت نہیں ہوتا تھا اس لئے اس نے حدیث شریف کا ترجمہ ہی بدل ڈالا۔ العیاذ باللّٰہ تعالٰی۔
صحیح ترجمہ سے خوب واضح ہو گیا کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اقامت کے بعد صفوں کی درستگی کا اہتمام فرماتے تھے اور تاوقتیکہ صفیں خوب سیدھی نہ ہو جاتیں تکبیر تحریمہ نہیں کہتے تھے۔ وھو تعالٰی وسبحانہ اعلم
کتب: جلال الدین احمد الامجدی
۳؍ شعبان المعظم ۱۹۹۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۹۳/۱۹۲)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند