دفاع کی برکت اور ضرورت واہمیت
فلسطینی مسلمانوں پر1948 سے یہود ونصاری ظلم وستم ڈھاتے رہے ہیں۔فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔وہ مسلسل مزاحمت ودفاع کرتے رہے ہیں،لیکن اس بار فلسطینی مسلمانوں نے ایسی جرات و بہادری دکھائی کہ مشرق وسطی کا سپر پاور اس کے سامنے بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے۔ابھی اسرائیل جو دھمکیاں دے رہا ہے،وہ دراصل گیدڑ بھبکی ہے۔
اسرائیلی فوجی حماس سے زمینی جنگ جیت نہیں سکتے اور اسرائیل ہوائی حملے کر کے فلسطینیوں کو ضرور تباہ وبرباد کر سکتا ہے،لیکن وہ خود بھی بچ نہیں پائے گا حماس بھی راکٹوں اور میزائلوں سے اسرائیلی شہروں پر حملہ کرتا ہے اور جس طرح امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے،اسی طرح عرب ملیشیا (غیر سرکاری فوجی گروپس)حماس کے ساتھ کھڑے ہیں۔اگر امریکہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ہے تو دنیا کا کوئی ملیشیا بھی کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ہے۔ان کے لئے
امریکہ اور غیر امریکا سب یکساں ہے۔
عہد حاضر میں دنیا میں جتنے بھی ملیشیا ہیں،وہ ملکی یا عالمی قوانین کو نہیں مانتے ہیں،بلکہ دنیا میں بہت سے قوانین ملیشیا کے کہنے پر بنائے گئے ہیں اور ملکوں کو ان ملیشیا کے سامنے جھکنا پڑا ہے۔دستور ہند میں بھی متعدد قوانین آسام،ناگالینڈ ودیگر ریاستوں کے ملیشیا کے کہنے پر بنائے گئے ہیں۔
حماس کوئی ملیشیا نہیں،بلکہ غزہ پٹی کی حکمراں پارٹی ہے،لیکن عرب ممالک کے ملیشیا جماس کے ساتھ ہیں۔جب حماس نے سخت دفاعی پوزیشن اختیار کی تو دنیا کے لوگ اس کے ساتھ ہو گئے اور اقوام متحدہ میں بھی فلسطین کی حمایت میں آوازیں بلند ہونے لگیں،ورنہ فلسطین کے لوگ 75 سالوں سے ظلم وجبر کے شکار ہیں۔دنیا میں نہ کبھی فلسطین کی حمایت میں اتنے مظاہرے ہوئے،نہ اقوام متحدہ میں اتنی قوت کے ساتھ فلسطین کی حمایت میں بحث ہو سکی تھی۔
آج بھی دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں پر ظلم وجبر ہو رہا ہے،لیکن وہ خود دفاعی پوزیشن اختیار نہ کر سکے تو دنیا کے لوگ بھی ان کے حق میں آواز بلند نہیں کرتے۔چند دنوں قبل مسلم ممالک کے سربراہان وذمہ داران چین گئے تھے،تاکہ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وجبر کو ختم کیا جا سکے۔چین اس واسطے اقدام کے لئے راضی بھی ہو گیا۔دوسری جانب خود چینی حکومت اپنے ملک میں آباد مسلمانوں پر مسلسل ظلم وستم ڈھاتی رہتی ہے۔
چینی مسلمان اپنے اوپر ہونے والے مظالم کا مضبوط دفاع نہیں کرتے،لہذا دنیا کے لوگ چینی مسلمانوں سے متعلق کچھ نہیں بولتے۔
دنیاوی قوانین میں صرف سلف ڈیفنس کا قانون موجود ہے۔شرعی قوانین میں سلف ڈیفنس کے ساتھ ہجرت کا قانون بھی موجود ہے۔جہاں کے مسلمان اپنا ڈیفنس نہ کر سکیں،ان کے لئے ہجرت کی صورت موجود ہے۔مکہ معظمہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور مکی صحابہ کرام کا آبائی وطن تھا۔مکہ مکرمہ میں ہی کعبہ مقدسہ ہے جو مسلمانوں کا قبلہ ہے،لیکن حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو مکہ معظمہ سے ہجرت کا حکم دیا گیا۔ایسا حکم نہیں کہ دفاع کی قوت نہ ہو تو بھی اسی مقام پر ذلت وخواری کے ساتھ زندگی گزارتے رہیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:30:نومبر 2023