جمعہ کی اذان ثانی کا مسجد کے اندر ہونا کیسا ہے؟
مسجد کے باہر اذان دینے کو بدعت کہنا کیسا ہے؟
مسئلہ: مسئولہ مولوی عبدالرزاق قادری مدرس مدرسہ انوار العلوم عماد پٹی۔ ضلع چمپارن۔
جمعہ کی اذان ثانی کا مسجد کے اندر ہونا کیسا ہے؟ داخل مسجد اذان ہونے کو زید مکروہ بتاتا ہے حوالہ میں حدیث اور کتب معتبرہ پیش کرتا ہے‘ اور بکر خارج مسجد اذان دینے کو بدعت قرار دیتا ہے‘ اور دلائل کو نہیں مانتا تو بکر کے لئے کیا حکم ہے؟
الجواب: بیشک جمعہ کی اذان ثانی مسجد کے اندر پڑھنا مکروہ و ممنوع ہے‘ اور خارج مسجد پڑھنا بدعت نہیں بلکہ داخل مسجد پڑھنا بدعت ہے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارکہ میں جمعہ کی یہ اذان مسجد کے دروازے ہی پر ہوا کرتی تھی جیسا کہ ابوداؤد شریف میں ہے:
السائب بن یزید قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علیٰ باب المسجد وابی بکر وعمر (رضی اللہ عنہما)
یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دورازہ پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں اور طحطاوی علیٰ مراقی الفلاح مصری ص ۱۱۷ پر ہے: یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القھستانی عن النظم۔ یعنی زندویستی پھر قہستانی میں ہے کہ مسجد میں اذان مکروہ ہے لہٰذا زید کا قول صحیح اور حق ہے‘ اور بکر جو خارج مسجد اذان دینے کو بدعت بتاتا ہے‘ اور حدیث و فقہ کو نہیں مانتا جاہل اور ہٹ دھرم ہے۔ واللّٰہ تعالٰی اعلم
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۰۴/۲۰۳)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند