خطبہ کی اذان اور پنج وقتی اذان کہاں دی جائے؟
مسجد کے اندر یا باہر اور صحن کی دیوار پر اذان پڑھنا کیسا ہے؟
مسئلہ: از احمد اسرائیل حشمتی پوسٹ و مقام ڈونگلہ چتوڑ گڑھ (راجستھان)
خطبہ کی اذان اور پنج وقتی اذان کہاں دی جائے؟ مسجد کے اندر یا باہر اور صحن کی دیوار پر اذان پڑھنا کیسا ہے؟
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب پنج وقتی اذان کسی بھی جگہ مسجد کے باہر دی جائے کہ مسجد کے اندر اذان پڑھنا مکروہ و منع ہے فتاویٰ قاضی خان جلد اوّل مصری ص ۷۸، فتاویٰ عالم گیری جلد اوّل مصری ص ۵۵، اور بحر الرائق جلد اوّل ص ۲۶۸ میں ہے: لایؤذن فی المسجد یعنی مسجد کے اندر اذان پڑھنا منع ہے‘ اور فتح القدیر جلد اوّل ص ۲۱۹ میں ہے: قالوا لایؤذن فی المسجد عنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے اور طحطاوی علی مراقی ص ۳۱۷ میں ہے: یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القھستانی عن النظم یعنی مسجد میں اذان پڑھنا مکروہ ہے اسی طرح قہستانی میں نظم سے ہے‘ اور صحن کی دیوار پر اذان پڑھنے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ خارج مسجد ہے‘ اور خطبہ کی اذان خطیب کے سامنے مسجد کے باہر پڑھی جائے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے زمانہ میں پڑھی جاتی تھی۔ حدیث کی معتبر کتاب ابوداؤد شریف جلد اوّل ص ۲۱۶ میں ہے:
عن السائب بن یزید قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علیٰ باب المسجد وابی بکر و عمر۔
۔ یعنی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں۔ لہٰذا عام طور پر جو رواج ہو گیا ہے کہ خطبہ کی اذان مسجد کے اندر دی جاتی ہے وہ غلط ہے۔ وھو تعالٰی اعلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۲۹؍ جمادی الاخریٰ ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۰۷/۲۰۶)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند