اذان اوّل یا اذان ثانی مسجد کے اندر دینا جائز ہے کہ نہیں؟۵ کیا پہلے اذان خطبہ خارج ہونے کو کوئی نہیں جانتا تھا

اذان اوّل یا اذان ثانی مسجد کے اندر دینا جائز ہے کہ نہیں؟
۵ کیا پہلے اذان خطبہ خارج ہونے کو کوئی نہیں جانتا تھا

مسئلہ: از شاہ محمد قادری رضوی نوری امام مسجد ماماری محلہ و پوسٹ چپلون رتنا گیری (مہاراشٹر)
اذان اوّل یا اذان ثانی مسجد کے اندر دینا جائز ہے کہ نہیں؟ زید کہتا ہے کہ ہندوستان میں تقریباً سبھی مسجدوں میں منبر سے ڈیڑھ ہاتھ ہٹ کر خطیب کے سامنے اذان آج پشتہاپشت سے ہوتی چلی آ رہی ہے آج تک کسی نے منع نہ کیا۔ کیا ان تمام اماموں میں اس مسئلہ کا جاننے والا کوئی نہ تھا؟ لہٰذا ہر اعتبار سے مسجد کے اندر منبر کے قریب خطیب کے سامنے اذان دینا صحیح ہے شریعت مطہرہ میں چاروں اماموں کے نزدیک اذان اولیٰ و اذان ثانی کہاں دینی چاہئے؟ اور زید کا اثبات صحیح ہے یا غلط ہے؟

الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصواب اذان اوّل ہو یا اذانِ ثانی مسجد کے اندر پڑھنا مکروہ ہے بحر الرائق جلد اوّل ص ۲۶۸ میں ہے: لایؤذن فی المسجد یعنی مسجد کے اندر اذان پڑھنا منع ہے‘ اور فتح القدیر جلد اوّل ص ۲۱۹ میں ہے: قالوالا یؤذن فی المسجد یعنی فقہائے کرام نے فرمایا کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے۔ اور طحطاوی علی مراقی الفلاح ص ۲۱۷ میں ہے: یکرہ ان یؤذن فی المسجد کما فی القھستانی عن النظم۔ یعنی مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے اسی طرح قہستانی میں نظم سے ہے‘ اور خاص کر جمعہ کی اذان ثانی کے بارے میں حدیث کی معتبر کتاب ابوداؤد شریف جلد اوّل ص ۱۶۲ میں ہے:
عن السائب بن یزید قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابی بکر و عمر۔
یعنی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ جب رسول کریم علیہ الصلاۃ التسلیم جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنے مسجد کے دروازے پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں۔
اس حدیث شریف سے واضح طور سے معلوم ہوا کہ خطبہ کی اذان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارکہ میں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں مسجد کے باہر ہی ہوا کرتی تھی اور یہی سنت ہے حدیث شریف کے مقابلہ میں غلط رواج کا پیش کرنا صحیح نہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین۔ میرا اور خلفاء راشدین کا طریقہ تم پر لازم ہے۔ لہٰذا جو لوگ سرکار کے ماننے والے ہیں وہ حضور کی اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنے کے لئے مسجد کے باہر خطبہ کی اذان دیتے ہیں اور جو باپ دادا کے رواج کو مانتے ہیں وہ حضور کی سنت جاننے کے باوجود اندر ہی اذان پڑھ کر حضور کی سنت کو ٹھکراتے ہیں اور باپ دادا کے رواج کو زندہ کرتے ہیں‘ اور جبکہ حدیث شریف اور فقہ سے ثابت ہے کہ خطبہ کی اذان مسجد کے باہر پڑھنا سنت اور داخل مسجد پڑھنا مکروہ و منع ہے تو جو لوگ پشتہاپشت سے مسجد کے اندر خطبہ کی اذان پڑھتے چلے آئے وہ اس مسئلہ سے جاہل تھے یا جاہل نہ تھے بالکل ظاہر ہے۔ چاروں اماموں میں سے کسی نے مسجد کے اندر اذان پڑھنے کا حکم نہیں دیا ہے… زید کا استدلال بہرصورت صحیح نہیں خداتعالیٰ تمام مسلمانوں کو غلط رواج چھوڑ کر حدیث وفقہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہٹ دھرمی سے بچائے آمین یا رب العٰلمین۔ وھو تعالٰی اعلم بالصواب۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۱۸/۲۱۹)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top