بینک کا نفع کھانے والے کی امامت کیسے؟

بینک کا نفع کھانے والے کی امامت کیسے؟

مسئلہ: از ڈاکٹر شکیل احمد نوری دواخانہ باری مسجد جگتدل۔ ضلع ۲۴ پرگنہ
زید پابند شرع و متقی ہے‘ اور مسجد کا امام بھی ہے مگر انہوں نے بینک میں روپیہ جمع کیا ہے اور اس سے جو سود ملتا ہے وہ اپنے مصرف میں لاتا ہے‘ اور اس سے زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے لہٰذا ایسی صورت میں زکوٰۃ ادا ہو گی یا نہیں؟ اور ان کی امامت درست ہے یا نہیں؟ تشفی بخش جواب تحریر فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب: زید جس بینک کے روپیہ کا نفع اپنے مصرف میں لاتا ہے اس سے زکوٰۃ ادا کرتا ہے اگر وہ بینک مسلمانوں کا ہے یا مسلمانوں اور کافروں کا مشترکہ ہے تو اس صورت میں اس پیسہ سے زکوٰۃ ادا کرنا اور زید کے پیچھے نماز پڑھنا درست نہیں کہ وہ سخت گنہگار فاسق اور سودخور ہے۔ اگر وہ بینک یہاں کے خالص غیرمسلموں کا ہے تو اس کا نفع شرعاً سود نہیں اسے اپنے مصرف میں لانا اور اس سے زکوٰۃ وغیرہ ادا کرنا جائز ہے کہ یہاں کے غیرمسلم کافر حربی ہیں‘ اور کافر حربی و مسلمان کے درمیان سود نہیں۔ رئیس الفقہاء حضرت ملاجیون رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
ان ھم الاحربی وما یعقلھا الاالعالمون (تفسیرات احمدیہ ص ۳۰۰) اور حدیث شریف میں ہے: لاربابین المسلم والحربی فی دارالحرب‘ اور دارالحرب کی قید اس حدیث شریف میں اتفاقی ہے نہ کہ احترازی۔ کما صرح بہ العالمون۔ ھٰذا ما عندی وھو سبحانہ وتعالٰی اعلم

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۲۷؍ ربیع الاول ۱۴۰۰ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۶۲)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top