مرد کو داڑھی منڈانا حرام اور ایسے کہ امامت جائز نہیںداڑھی کے ایک مشت کا وجوب حدیث سے ثابت ہے۔نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے؟سجدہ میں جاتے ہوئے کپڑا سمیٹنا کیسا ہے؟اگر امام کو پیدائشی طور پر داڑھی نہ ہو تو کیا حکم ہے؟تراویح پڑھنا سنت مگر فاسق کے پیچھے پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنا واجب ہے؟امامت کے لیے شادی شدہ ہونا شرط نہیں۔روڈ کی دوسری جانب نئی مسجد بنانا کیسا ہے؟

مرد کو داڑھی منڈانا حرام اور ایسے کہ امامت جائز نہیں
داڑھی کے ایک مشت کا وجوب حدیث سے ثابت ہے۔
نماز میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے؟
سجدہ میں جاتے ہوئے کپڑا سمیٹنا کیسا ہے؟
اگر امام کو پیدائشی طور پر داڑھی نہ ہو تو کیا حکم ہے؟
تراویح پڑھنا سنت مگر فاسق کے پیچھے پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنا واجب ہے؟
امامت کے لیے شادی شدہ ہونا شرط نہیں۔
روڈ کی دوسری جانب نئی مسجد بنانا کیسا ہے؟

مسئلہ: از مقام آستانۂ عالیہ سیّدنا بندہ نواز رحمۃ اللہ علیہ گلبرگہ شریف۔ معرفت جعفر علی جونانٹ بولٹ درگاہ روڈ گلبرگہ شریف۔
محترمی حضرت مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدیؔ صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ
السلام علیکم ورحمتہ۔ عید سعید کی مبارکباد اخلاص قبول فرمائیں۔ بفضلہ تعالیٰ المولیٰ وبعون رسولہٖ الاعلٰی میں بخیرت ہوں اور آپ کی خیریت کا خداوند قدوس سے نیک خواہاں ہوں شہر گلبرگہ شریف میں بے شمار مساجد ہیں پنج وفتہ نمازیں ہوتی ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ اکثر مساجد کے ائمہ داڑھیوں کو حدشرع سے زیادہ کترواتے ہیں‘ بلکہ غیرمذہب طریقہ پر رکھتے ہیں جبکہ داڑھی کی شرعی حد ایک مشت بتلائی جاتی ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے حبیب پاک کے صدقہ میں نے داڑھی رکھ لی ہے۔ اللہ تعالیٰ صحیح العقیدہ مسلمانوں کو اس سنت کریمہ کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سیّد المرسلین۔
چند مسائل ذہن پر بار ہیں براہ کرم فقہی مستند مسائل کی روشنی میں احقر کو بذریعہ لیٹر مرحمت فرما کر شش و پنج کی تیرگی سے نجات دلائیں۔ حسب یل مسائل کی روانگی کا انتظام فرمائیں جو طالب علم کی پیاس بجھانے کے مصداق ہوں گے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
اول(۱) ایک محلہ کی مسجد کے امام صاحب بحمدہٖ تعالیٰ سنی حنفی و صحیح العقیدہ ہیں‘ اور ان کی ایک مشت داڑھی ہے البتہ بعض دفعہ وہ اپنے صاحبزادے کو فرض نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھا دیتے ہیں‘ اور صاحبزادے داڑھی حد شرع سے کم ہی کترواتے ہیں۔ ان کے پیچھے کے نماز ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اگر داڑھی بڑھ نہ رہی ہو تو کیا حکم ہے؟
دوم(۲) بعض ائمہ مساجد کو دیکھا گیا کہ بحالت نماز نظر ادھر ادھر گھماتے ہیں اور عمل کثیر کرتے ہیں یعنی دونوں ہاتھوں سے کپڑوں کو سمیٹتے ہیں کیا نماز فائدہ مند نہ ہو گی؟
سوم(۳) اکثر حفاظِ کرام کی داڑھیاں نہیں ہوتیں اور داڑھیاں رکھتے بھی ہیں تو فیشن ایبل کیا ان کی اقتداء میں تروایح کی نماز درست ہے؟
چہارم(۴) ایک صاحب کبھی کبھی فرض پڑھاتے ہیں، حالانکہ ن کی عمر ۳۰؍ سال سے تقریباً زائد ہو گی شادی نہیں کی ہے بعض حضرات انہیں نماز پڑھانے سے روکتے ہیں تو کیا وہ نماز پڑھا سکتے ہیں یا نہیں؟
پنجم(۵) ایک مقام پر افطار کے ساتھ اذان و نماز باجماعت کا شاندار اہتمام ہوا جب کہ اس مقام سے مسجد صرف سڑک پار کرنے کا فاصلہ رکھتی ہے بلکہ مسجد کی اذان کی آواز وہاں تک پہنچتی ہے‘ تو کیا اس مقام پر اذان دے کر نماز باجماعت ادا کی جا سکتی ہے؟

الجواب: (۱) ایک مشت تک داڑھی بڑھانا واجب ہے چونکہ اس کا وجوب سنت سے ثابت ہے اس لئے عام طور پر لوگ اسے سنت کہہ دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: خالفوا المشرکین اوفر وا اللحیٰ واحفوا الشوارب وفی روایۃ انھکوا الشوارب واعفوا اللحٰی۔ یعنی سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مشرکین کی مخالفت کرو داڑھیوں کو بڑھاؤ اور اونچھوں کو کتراؤ‘ اور ایک روایت میں ہے کہ مونچھوں کو خوب کم کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔ (بخاری، مسلم) درمختار میں ہے: یحرم علی الرجل قطع لحیتہ۔ یعنی مر د کو داڑڑھی منڈانا حرا م ہے‘ اور بہار شریعت جلد شانزدہم (۱۶) ص ۱۹۷ میں ہے: داڑھی بڑھانا سنن انبیائے سابقین سے ہے منڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے‘ اور حضرت شید عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: حلق کردن لحیہ حرام ست وروش افرنج و ہنود و جوالقیان ست کہ ایشاں را قلندریہ گویند و گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست وآں کہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقۂ سلوک دین ست۔ یابجہت آنکہ ثبوت آں بسنت ست چنانکہ عید را سنت گفتہ اند‘‘… یعنی داڑھی منڈانا حرام ہے‘ اور انگریزوں، ہندؤں اور قلندریوں کا طریقہ ہے‘ اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے‘ اور جن فقہاء نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا تو یہاں سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے‘ اور یا تو اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ بہت سے علماء کرام نے عید کو مسنون فرمایا (حالانکہ نماز عید واجب ہے) (اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۲۱۲) اور درمختار مع شامی جلد دوم ص ۱۱۶ ‘ردالمحتار جلد دوم ص ۱۱۷‘ بحر الرائق جلد دوم ص ۲۸۰‘ اور طحطاوی ص ۴۱۱ میں ہے:
واللفظ للطحطاوی الاخذ من اللحیۃ وھودون لک (ای القدر المسنون وھو القبضۃ) کما یفعلہ بعض الغاربۃ ومخنثۃ الرجال لم یبحہ احد اخذکلھا فعل یھود الھند و مجوس الاعاجم۔
یعنی داڑھی جب کہ ایک مشت سے کم ہو تو اس کا کاٹنا جس طرح بعض مغربی اور زنانے زنخے کرتے ہیں کسی کے نزدیک حلال نہیں‘ اور کل داڑھی کا صفایا کرنا یہ کام تو ہندوستان کے یہودیوں اور ایران کے مجوسیوں کا ہے ۔ا ھ۔ لہٰذا امام کے صاحبزادے اگر داڑھی کٹا کر ایک مشت سے کم رکھتے ہیں تو ان کو امامت کے لئے آگے بڑھانا جائز نہیں اگر بڑھا دیا تو ایسے آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ اگر پڑھی تو اس نماز کا دہرانا واجب ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے کہ وہ فاسق مرتکب حرام ہے جیسا کہ مذکورہ بالا عبارتوں سے ظاہر ہے‘ اور داڑھی نہ بڑھنے کا عموماً لوگ بہانہ بناتے ہیں لیکن اگر حقیقت میں داڑھی نہ بڑھتی تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ اور کوئی وجہ مانع جواز امامت نہ ہو۔ وھو تعالٰی اعلم
دوم(۲) نماز کی حالت میں ادھر ادھر منہ پھیر کر دیکھنا مکروہ تحریمی اور اگر منہ نہ پھیرے صرف کنکھیوں سے ادھر ادھر بلاحاجت دیکھے تو کراہت تنزیہی ہے‘ اور نادراً کسی صحیح غرض سے ہو تو اصلاً حرج نہیں۔ (بہار شریعت) اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے لیکن کپڑا سمیٹنا جیسا کہ ناواقف لوگ سجدہ میں جاتے ہوئے آگے یا پیچھے کے کپڑے کو اٹھاتے ہیں یہ مفسد نماز نہیں بلکہ مکروہ تحریمی اور ناجائز ہے جس نماز میں ایسا کیا گیا اس نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ وھو تعالٰی اعلم۔
سوم(۳) اگر حافظ کی پیدائشی طور پر داڑھی نہ ہو تو اس کے پیچھے تروایح پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ امامت کی اور شرط مفقود نہ ہو‘ اور اگر داڑھی منڈاتا ہو یا کٹا کر ایک مشت سے کم رکھتا ہو تو اس کے پیچھے تراویح پڑھنا مکرہ تحریمی واجب الاعادہ ہے کہ وہ فاسق ہے یعنی تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے مگر فاسق کے پیچھے پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنا واجب۔ ھٰکذا فی الکتب الفقہ۔ وھو تعالٰی اعلم۔
چہارم(۴) امامت کے لئے شادی ہونا شرط نہیں لہٰذا شخص مذکور میں اگر کوئی دوسری شرعی خرابی نہ ہو تو اس کے پیچھے ہر قسم کی نماز پڑھ سکتے ہیں۔
پنجم(۵) اگر افتراق بین المسلمین نہ ہو تو جس طر ح مسجد کے سامنے روڈ کی دوسری جانب مسجد بنانا جائز ہے اسی طرح اذان و اقامت کے ساتھ اس جگہ نماز باجماعت پڑھنا بھی جائز ہے۔ وھو تعالٰی و سبحانہ اعلم بالصواب۔ والیہ المرجع المآب

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۲۰؍ شوال المکرم ۱۳۹۹ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۷۶/۲۷۵/۲۷۴)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top