حد شرع سے کم داڑھی رکھنے والی کی امامت درست ہے کہ نہیں؟
مسئلہ: از محمد ابراہیم دھوبہی پوسٹ کھنڈ سری بازار۔ ضلع بستی۔
داڑھی کی شرعی حد کیا ہے؟ اور حد شرع سے کم اور زیادہ رکھنے والوں پر عندالشرع کیا حکم نافذ ہو گا؟ آیا ان کی امامت درست ہے یا نہیں؟ حدیث شریف اور کتب فقہ سے جواب عنایت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں۔
الجواب: بخاری اور مسلم کی حدیث ہے: سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: انھکوا الشوارب واعفوا اللحیٰ۔ یعنی مونچھوں کو خوب کم کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’گزاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست و آنکہ آں راست گویند بمعنیٰ طریقۂ مسلوک دردین ست یا بہجت آں کہ ثبوت آں بسنت ست چنانکہ نماز عیدرا سنت گفتہ اند‘‘۔ یعنی داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے‘ اور جن فقہاء نے ایک مشت داڑھی رکھنے کو سنت قرار دیا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا تو یہاں سنت سے مراد دین کا چالو راستہ ہے یا اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ نماز عید کو مسنون فرمایا (حالانکہ نماز عید واجب ہے) (اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۲۱۲) اور فقیہ اعظم حضرت صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’داڑھی بڑھانا سنن انبیائے سابقین سے ہے مونڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے‘‘۔ (بہار شریعت حصہ اوّل ص ۱۹۷) لہٰذا ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے مونڈانے یا ایک مشت سے کم کرانے والا سخت گنہگار‘ فاسق‘ معلن‘ مردود الشہادہ ہے ایسے شخص کے پیچھے نماز ہرگز درست نہیں اگر پڑھ لی تو اعادہ واجب۔ مراقی الفلاح میں ہے:
رہ امامۃ الفاسق لعدم اھتمامہ بالدین فتجب اھانتہ شرعاً فلا یعظم بتقد یمہ للامامۃ واذا تعذر منعہ ینتقل عنہ الی غیر مسجدہٖ للجمعۃ وغیرھا۔
۔ حد شرع یعنی ایک مشت سے کچھ زائد داڑھی رکھنا جائز ہے لیکن ہمارے ائمہ اور جمہور علماء کے نزدیک اس کا طول فاحش کہ بیحد بڑھایا جائے جو حد تناسب سے خارج اور باعث انگشت نمائی ہو مکروہ و ناپسندیدہ ہے۔ ھٰکذا فی لمعۃ الضحیٰ وھو تعالٰی اعلم
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۱۰)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند