جو امام سودی قرض لے کر لڑکے کو ملک عرب بھیجے اس کی امامت کیسی؟

جو امام سودی قرض لے کر لڑکے کو ملک عرب بھیجے اس کی امامت کیسی؟

مسئلہ: از فتح محمد چال چونہ بھٹی شانتا کروز (ویسٹ) بمبئی ۵۴
محلہ کی مسجد کے امام صاحب نے اپنے لڑکے عمر بیس سال تقریباً کو بغرض ملازمت عرب بھیجا‘ اور باہر بھیجنے کے لئے جو رقم دلال کو دی جاتی ہے۔ وہ رقم بطور قرض حسنہ نہ ملنے پر دو تین آدمیوں کے ذریعہ سود پر روپیہ جمع کر کے دلال کو دیا۔ نمازیوں میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ سود پر خود رقم لینے یا دوسرے کے ذریعہ لینے والے کے پیچھے نماز نہیں ہوتی۔ اس لئے لوگوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنا بند کر دیا۔ پھر دو دن کے بعد امام صاحب نے یہ کہا کہ میں اپنے لڑکے کے لئے صرف سودی روپیہ کی ضمانت لی تھی۔ اب میں توبہ کرتا ہوں آئندہ میں اس قسم کے گناہ میں نہ پڑوں گا‘ اور سودی روپیہ جو میرے لڑکے پر ہے وہ خود ادا کرے گا۔ اس بیچ میں میں لین دین میں بھی نہیں رہوں گا‘ اور پھر توبہ کے بعد لوگوں نے نماز شروع کر دی ہے۔ واضح ہو کہ توبہ سے پہلے چند آدمیوں کے سامنے اقرار کیا تھا کہ وہ سودی روپیہ میں نے لیا تھا اور توبہ میں کہا کہ روپیہ میرے لڑکے کو دیا ہے میں ضامن تھا اور ایسی ضمانت سے توبہ کرتا ہوں بعد توبہ نماز پڑھ رہے ہیں‘ تو کیا ایسے امام سے پیچھے نماز جائز ہے؟ بینو توجروا۔

الجواب: سود حرام اشد حرا م ہے۔ حدیث شریف میں ہے: سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود کا گناہ ایسے ستر گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے کم درجہ کا گناہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے زنا کرے (العیاذ بااللہ) (ابن ماجہ۔ بیہقی) اور سود لینے والے اور دینے والے دونوں گناہ میں برابر ہیں جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والوں، سود دینے والوں، سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے‘ اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ (مسلم شریف) لہٰذا صورت مستفسرہ میں اگر واقعی امام مذکور نے خودسودی روپیہ لیا تھا اور بعد میں کہا کہ میں صرف ضامن تھا تو امام پر سود اور جھوٹ دونوں سے توبہ کرنا واجب ہے‘ اور جس طرح بھی ممکن ہو سودی روپیہ کا جلد سے جلد واپس کرنا لازم ہے۔ اگر باوجود امکان وہ سودی روپیہ واپس نہ کریں تو ان کے پیچھے توبہ کے بعد بھی نماز نہ پڑھیں‘ اور چند آدمیوں کے سامنے جو پہلے اقرار کیا تھا کہ سودی روپیہ میں نے لیا تھا۔ اگر اس کا مطلب یہ تھا کہ میرے لڑکے نے لیا تھا کہ کبھی گھر والوں کا فعل بھی اپنی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے‘ تو اس صورت میں امام پر سودی روپیہ نکلوانے اور اس پر راضی وضامن ہونے سے توبہ لازم ہے‘ اور بعد توبہ ان کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں بشرطیکہ کوئی اور وجہ مانع امامت نہ ہو۔ وھو تعالٰی اعلم

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۳؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۲۱)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top