جو امام اشرف علی کا ترجمہ والا قران رکھے اس کے امامت کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جو امام اشرف علی کا ترجمہ والا قران رکھے اس کے امامت کے بارے میں کیا حکم ہے؟

مسئلہ: از حافظ محمد اشفاق حسین صاحب امام مسجد بھوانی پٹنہ صلع کالاہانڈی۔ اڑیسہ
ہمارے یہاں ایک حافظ صاحب یہی جنہوں نے اشرف علی کے مترجم قرآن شریف میں حفظ کیا ہے یہاں وہ امامت کرتے تھے جب لوگوں کو معلوم ہوا لوگوں نے کہا اس قرآن شریف کو دفن کر دو انھوں نے دفن نہیں کیا امامت چھڑا دی ہے دوسری جگہ قریب ہی امامت کرتے ہیں ابھی بھی قرآن شریف موجود ہے حافظ صاحب تو عالم نہیں ہیں صرف حافظ ہیں اگر کبھی کوئی سورت کا ترجمہ دیکھنا پڑتا ہو گا تو اسی میں دیکھتے ہوں گے آخر ان کو ضد کیا ہے قرآن شریف کو کیوں نہیں بدلتے جبکہ وہ اپنے کو سنی کہتے ہیں… دوسرے یہ کہ یہی حافظ صاحب ابھی ابھی عرصہ چھ ماہ ہوا اپنے چھوٹے بھائی کی شادی ایک تبلیغی جماعت کا آدمی جو چلہ میں اکثر جایا کرتا ہے تبلیغی جماعت کا ہے اس کی لڑکی کے ساتھ شادی کی ہے کیا ضرورت تھی وہاں شادی کرنے کی دوسری جگہ بھی کر سکتے ہیں؟ کہتے ہیں ہم سنی بنا لیں گے مہربانی فرما کر تسلی بخش جواب دیں۔

الجواب: بعض حافظ ایسے ہوتے ہیں کہ جس قرآن مجید میں وہ حفظ کرتے ہیں اس قرآن مجید کی مدد سے اپنے حفظ کو برقرار رکھتے ہیں اور دوسرے قسم کے مطبوعہ قرآن مجید سے اپنے بھولے ہوئے کو یاد نہیں کر پاتے اگر حافظ مذکورکی ایسی ہی حالت ہے تو اسے اس قرآن مجید کے رکھنے اورپڑھنے میں معذور رکھا جائے گا لیکن اس کا ترجمہ اور تفسیر دیکھنا ہرگز جائز نہیں کہ دین و ایمان کے لئے زہر قاتل ہے‘ اور اگر حافظ دوسرے قسم کے مطبوعہ قرآن مجید سے اپنے حفظ کو برقرار رکھ سکتا ہے‘ اوراپنے بھولے ہوئے کو یاد کر سکتا ہے تو بیشک اسے اس قرآن مجید کو دفن کر دینا چاہئے کہ غیرعالم کے لئے اس کا ترجمہ اور تفسیر فتنہ ہے بلکہ عام علماء کو بھی اس کے ترجمہ اور تفسیر کے مطالعہ کی اجازت نہیں‘ اور تبلیغی جماعت اور اس کی لڑکی اگر دیوبندی مولویوں کے عقائد کفریہ مندرجہ حفظ الایمان ص ۸ تحذیر الناس ص ۳،۱۴،۲۸ اور براہین قاطعہ ص ۵۱ پر یقینی اطلاع پاتے ہوئے ان کفری عبارتوں کو حق سمجھتے ہیں تو بمطابق فتویٰ حسام الحرمین باپ مرتد ہے اس سے رشتہ کرنا جائز نہیں اور لڑکی مرتدہ ہے اس کا نکاح کسی سے منعقد ہی نہیں ہو سکتا جیساکہ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل ص ۲۶۳ میں ہے:
لایجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ ولامسلمۃ ولا کافرۃ اصلیۃ وکذالک لایجوز نکاح المرتدۃ مع احد کذا فی المبسوط۔
یعنی مرتد کا نکاح کسی سے جائز نہیں ایسا ہی مبسوط میں ہے‘ اور اگر دیوبندیوں کے عقائد کفریہ کو باپ اور بیٹی حق نہیں سمجھتے لیکن ان کا طریقۂ کار وہابیوں جیسا ہے‘ اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز جائز سمجھتے ہیں تو گمراہ ہیں اس صورت میں اگرچہ نکاح منعقد ہو گیا لیکن لڑکی کو توبہ کرانے کے بعد اس کے باپ کے یہاں آمد ورفت رکھنے سے روکنا اور سب کو اس کے تبلیغی باپ سے قطع تعلق رکھنا لازم ہے اگر حافظ مذکور تبلیغی جماعت کے آدمی سے قطع تعلق نہ کرے تو ایسا شخص قابل امامت نہیں۔ وھو سبحانہ وتعالٰی اعلم

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۳؍ ذی الحجہ ۱۳۹۸ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۳۳/۳۳۱)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top