مبسملا وحامدا ومصلیا ومسلما
اسرائیل سے عربوں کی شکست کا سبب
(1)فی الوقت اسرائیل مختلف اطراف سے حملوں کا شکار ہے،لبنان کی طرف سے حزب اللہ حملے کر رہا ہے۔بحر احمر میں یمن کے انصار اللہ نے ناکوں میں دم کر رکھا ہے۔غزہ پٹی میں حماس کے سخت حملے ہو رہے ہیں۔ویسٹ بینک میں اسرائیلی فوجیوں پر فلسطینی مسلمان حملے کر رہے ہیں۔جنگ بندی کے لئے اسرائیلی عوام کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔اسی طرح ساری دنیا کے عوام جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھی 153 ممالک نے جنگ بندی کی تائید کی ہے۔اسرائیل کا نقصان بھی بہت ہو رہا ہے۔ان سب کے باوجود اسرائیل غزہ پٹی،لبنان اور شام پر مسلسل حملے کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فیصلہ ہو چکا ہے کہ گولان کی پہاڑیاں ملک شام کی ہیں،وہ ملک شام کو دی جائیں۔ان پہاڑی علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ غلط ہے۔ملک شام کی فوج گولان پہاڑیوں کے پاس موجود ہے۔اسرائیل مشکلات میں ہے،ایسے وقت میں بھی شامی فوج منہ تاک رہی ہے۔ملک شام اپنے زور بازو سے اپنے علاقوں پر بھی قبضہ کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہا ہے۔جب ایسی حالت میں بھی شامی فوج خاموش پڑی ہوئی ہے تو جب اسرائیل مشکلات سے آزاد ہو جائے گا تو اس وقت شامی فوج کیسے اپنے علاقوں پر قبضہ کر سکے گی۔
عہد ماضی میں اسرائیل سے عربوں کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی سمجھ میں اتی ہے کہ عرب افواج اور عربی سالار وجنگی مشیر نا اہل تھے۔وہ دشمن پر سخت حملے نہیں کرتے تھے اور دشمن سخت حملے کرتا تھا اور یہ لوگ شکست کھا کر واپس لوٹ جاتے تھے۔
(2) اسرائیل کے کچھ لوگ حماس کی قید میں ہیں۔ان قیدیوں کو چھڑانے کے لئے اسرائیلی عوام اپنی حکومت پر دباؤ بنا رہے ہیں۔اسرائیلی حکومت چاہتی ہے کہ چند دن جنگ بندی کر کے ان یہودی قیدیوں کو آزاد کرا لیا جائے۔اس کے بعد پھر غزہ پٹی کے مسلمانوں پر بمباری کر کے ان کی نسل کشی کی جائے۔حماس مستقل جنگ بندی چاہتا ہے،لیکن اسرائیل مستقل جنگ بندی کے لئے راضی نہیں،لہذا جنگ بندی کی بات چیت ناکام ہو چکی ہے۔
(3) اسرائیل غزہ پٹی کی زمینی جنگ میں بالکل ناکام اور سخت ہزیمت ورسوائی سے دو چار ہے۔اس کے باوجود اسرائیل جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ گرچہ ہر دن اسرائیل کے سو ڈیڑھ سو فوجی ہلاک ہو رہے ہیں،لیکن اسرائیل ہر دن ہوائی حملے کر کے چار پانچ سو فلسطینی شہریوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور اسرائیل کا مقصد فلسطینی شہریوں کی نسل کشی ہے،تاکہ ہلاکت کی کثرت کو دیکھ کر فلسطینی مسلمان غزہ پٹی اور ویسٹ بینک سے بھاگ جائیں۔
اسرائیل کا یہ پلان مخفی اور پوشیدہ نہیں،بلکہ اسرائیل اعلانیہ کہتا ہے کہ غزہ پٹی اور ویسٹ بینک پر قبضہ کر کے گریٹر اسرائیل کی تشکیل ہو گی۔یہودی کائنات عالم کی سب سے بدترین قوم ہے۔یہ لوگ جہاں بھی رہیں گے،وہاں فتنہ وفساد پھیلاتے رہیں گے۔
(4) فلسطین واسرائیل کی حالیہ جنگ کو دیکھ کر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حماس کی جنگی حکمت عملی انتہائی مستحکم اور نتیجہ خیز ہے۔زمینی جنگ میں اسرائیل کے ساتھ امریکہ،برطانیہ ودیگر مغربی ممالک کی فوجیں بھی ہیں،لیکن زمینی جنگ میں یہود ونصاری کی فوجیں بالکل ناکام ہیں۔
قابل تحسین اور بے مثال جنگی حکمت عملی اور شیروں کی طرح شجاعت و بہادری کے باوجود حماس نے عوام کو اسرائیل کی بمباری سے محفوظ رکھنے کا کوئی انتظام نہ کیا،نہ ہی اسرائیلی فضائیہ کو بمباری سے روک سکا۔جب حماس نے اس جنگ کی طویل تیاری کی تھی تو عوام کو بمباری سے محفوظ رکھنے کا بھی کوئی طریقہ اختیار کرنا تھا۔
اسرائیل نے اپنے بڑے شہروں میں جا بجا بنکر(سرنگ)بنا رکھا ہے۔جیسے ہی کوئی میزائل یا راکٹ اسرائیل کی طرف آتا ہے،ویسے ہی آئرن ڈوم سائرن بجانے لگتا ہے اور لوگ دوڑ کر بنکر میں گھس جاتے ہیں۔میزائل وراکٹ کسی بلڈنگ پر گرتے ہیں اور آگ لگ جاتی ہے۔آگ بجھانے کا بھی اسرائیل نے مستحکم انتظام کر رکھا ہے۔گرچہ بعض لوگ راکٹ ومیزائل سے زخمی ہو جاتے ہیں،یا ہلاک ہو جاتے ہیں،لیکن نقصان بہت کم ہوتا ہے۔ایران نے ایسا میزائل بنایا ہے کہ آئرن ڈوم اس کا جب پتہ لگائے،اس وقت وہ میزائل اپنے نشانہ پر پہنچ کر تباہی مچا دیتا ہے،لیکن حماس کے پاس ایسے میزائل نہیں۔
(5)آج اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دوبارہ جنگ بندی کے لئے قرار داد پیش ہونے والی تھی،لیکن امریکہ کی دخل اندازی کے سبب آج یہ قرار داد پیش نہ کی جا سکی۔ کل یہ قرار داد پیش کی جائے گی۔چند دنوں قبل ہی امریکہ نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی مخالفت کی ہے۔اس مرتبہ کیا ہوتا ہے،وہ دیکھنا ہو گا۔
درحقیقت یمن نے بحر احمر میں اسرائیل کی جانب جانے والے سمندری جہازوں پر پابندی لگا رکھی ہے،جس سے ساری دنیا کی تجارت متاثر ہو رہی ہے اور امریکہ مسلسل کوشش کر رہا ہے کہ عرب ممالک یمن پر حملہ کریں،لیکن عرب ممالک یمن پر حملہ کے لئے راضی نہیں،کیوں کہ یمن نے اعلان کر دیا ہے کہ عرب ممالک نے یمن پر حملہ کیا تو وہ عربوں کے تیل وگیس کی پائپ لائن پر حملہ کر کے ان کی تجارت کو تباہ کر دے گا۔
امریکہ نے دنیا بھر کے ممالک سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ یمن کے ساتھ جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیں،لیکن کوئی ملک خوش دلی کے ساتھ امریکہ کا ساتھ دینے راضی نہیں اور خود امریکہ ومغربی ممالک میں فلسطین واسرائیل جنگ بندی کے لئے سخت مظاہرے ہو رہے ہیں۔ایسی صورت میں امریکہ تنہا یمن کے ساتھ جنگ کے لئے آگے بڑھنا نہیں چاہتا۔کل سلامتی کونسل کی میٹنگ کو دیکھ لیا جائے کہ کیا فیصلہ ہوتا ہے۔اگر جنگ بندی نہ ہوئی تو جنگ خطرناک مرحلے میں داخل ہو جائے گی اور بہت تباہی وبربادی ہو گی۔
(6)دنیا کے اکثر ممالک فلسطین کو ایک آزاد ملک بنانے کی وکالت کر رہے ہیں،لیکن اسرائیل اس کے لئے بالکل راضی نہیں ہے۔بظاہر امریکہ بھی دو ملکی نظریہ کا قائل ہے،لیکن اس کا ظاہر وباطن یکساں نہیں ہوتا،نیز امریکہ کی خارجہ پالیسی مسلم مخالف ہے۔امریکہ میں کوئی پارٹی بھی برسر اقتدار ہو،وہ مسلمانوں کی خیر خواہ نہیں ہو سکتی۔جنگ بندی کے بعد فلسطین کو آزادی ملتی ہے یا نہیں؟ یہ آنے والا وقت بتائے گا۔فلسطین کے مظلوم مسلمان 1948 سے اپنے لئے ایک آزاد ملک کی تمنا کر رہے ہیں۔اسی آزادی کی تمنا میں ان کی کئی نسلیں گزر چکیں اور آزادی کی خواہش میں فلسطینی مسلمان جان ومال کی قربانی دے رہے ہیں۔
(7)ماہ اکتوبر میں فلسطین واسرائیل جنگ شروع ہونے کے وقت کسی خاتون نے خواب دیکھا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بیت المقدس میں جلوہ گر ہیں اور بہت بڑا مجمع ہے۔حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلسطینی مسلمانوں کے قتل وغارت گری سے میں بہت رنجیدہ ہوں۔حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم! مسلمانوں کی کامیابی کب ہو گی؟ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:شہادت حقیقی کامیابی ہے۔پھر دوبارہ عرض کیا گیا کہ مسلمانوں کی کامیابی کب ہو گی؟ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے دو بارہ ارشاد فرمایا کہ شہادت حقیقی کامیابی ہے۔اس کے بعد پھر دریافت کیا گیا کہ مسلمانوں کو اس مصیبت سے نجات کیسے ملے گی؟ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک بڑے لشکر کی اشارہ فرمایا اور خوش خبری سنائی کہ یہ لشکر یہودیوں کو قتل کرے گا۔
یہ لشکر کون سا ہے،معلوم نہیں۔ممکن ہے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر ہو،یا امام مہدی رضی اللہ تعالی عنہ کے ظہور سے قبل کوئی لشکر نمودار ہو:واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:19:دسمبر2023