تین بار طلاق سمجھا جائے اس جملہ سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟
مسئلہ: از عبدالعزیز راعی بلرام پور ضلع گونڈہ
زید نے اپنی زوجہ منکوحہ ہندہ کو شادی سے لے کر عرصہ کئی سال تک رخصت نہیں کروایا اور خود شرابی بھی ہے۔ ہندہ کے والدین نے زید کو بلا کر کہا ہماری لڑکی کو رخصت کروانے کا انتظام کر کے لے جاؤ اگر نہ لے جانا ہو تو طلاق دے دو۔ زید نے بایں الفاظ وعدہ کیا کہ میں اپنی شراب نوشی کی عادت چھوڑ دوں گا اور ہندہ کے رہنے کے لئے گھر کا انتظام کر لوں گا اور ۳۰؍ جنوری ۱۹۸۰ء سے قبل رخصت کروا لوں گا اگر ایسا نہ کر سکوں گا تو ۳۱؍ جنوری ۱۹۸۰ء کو تین بار طلاق سمجھا جائے اب جبکہ زید اپنا وعدہ پورا نہ کر سکا اور نہ ہی خسر کے یہاں آیا کیا الفاظ مذکور سے طلاق واقع ہو گئی؟ ہندہ کا عقد نابالغی میں ہوا تھا اور اب وہ بالغ ہے مگر عقد سے اب تک زید کے گھر نہیں گئی ہے۔ ایسی صورت میں عدت ہے یا نہیں؟ بیان فرما کر عنداللہ ماجور ہوں۔
الجواب: صورت مستفسرہ میں زید کی بیوی پر طلاق نہیں واقع ہوئی… فتاویٰ رضویہ جلد پنجم ص ۶۱۷ میں ہے کہ شوہر کے اس جملہ سے کہ ’’میری زوجہ کو طلاق سمجھی جائے‘‘ طلاق واقع نہ ہوئی اور فتاویٰ قاضی خاں میں ہے: *امراۃ قالت لزوجھا مراطلاق دہ فقال الزوج دادہ انگار اوقال کردہ انگار لایقع الطلاق وان نوی کانہ قال لھا بالعربیۃ احسبی انک طالق وان قال ذلک لایقع الطلاق وان نوی* ا ھ۔ وھو تعالیٰ اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۳؍ ربیع الاول ۱۳۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۰۷)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند