زبردستی طلاق نامہ پر انگوٹھا لے لیا تو کیا حکم ہے؟

زبردستی طلاق نامہ پر انگوٹھا لے لیا تو کیا حکم ہے؟

مسئلہ: از برکت اللہ مقام و پوسٹ چوکھڑا بازار ضلع بستی یو-پی
زید کی منکوحہ ہندہ کے ورثاء نے زید کو کمرہ میں بند کر کے طلاق نامہ لکھ کر طلاق پر زبردستی زید کا انگوٹھا لے لیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ صورت مذکوہ میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

الجواب: کمرہ میں بند کرنے پر اگر اکراہ شرعی پایا گیا یعنی زید کو ضرر رسانی کا اندیشہ ہوا اور اس نے بند کرنے والوں کو ضرر پر قادر بھی سمجھا اس صورت میں اگر اس نے طلاق نامہ پر انگوٹھا لگا دیا مگر نہ دل میں طلاق دینے کا ارادہ کیا اور نہ زبان سے طلاق کا لفظ کہا تو طلاق واقع نہ ہوئی‘ اور اگر زید کو ضرر رسانی کا اندیشہ نہ ہوا تھا یا دستخط کے وقت اس نے دل میں طلاق کے لفظ کا ارادہ کر لیا تھا یا دستخط کرنے کے ساتھ ہی اسی وقت یا بعد میں زبان سے طلاق دینے کا اقرار کیا تو ان تمام صورتوں میں طلاق واقع ہو گئی۔ درمختار میں ہے: یقع طلاق کل زوج بالغ عاقل ولومکرھا ا ھ۔ اور ردالمحتار جلد دوم ص ۴۲۱ میں ہے:
فی البحران المراد الاکراہ علی التلفظ بالطلاق فلوا کرہ علی ان یکتب طلاق امراتہ فکتب لاتطلق لان الکتابۃ اقیمت مقام العبارۃ باعتبار الحاجۃ ولاحاجۃ ھنا کذا فی الخانیۃ ا ھ۔ ھٰذا ماعندی والعلم بالصواب عند اللّٰہ تعالٰی ورسولہ عزاسمہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۱۴؍ ربیع الاول ۱۴۰۰ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۱۷)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top