کیا نالائق عورت کو طلاق دینے کے سبب شوہر مستحق ملامت ہوگا؟
مسئلہ: از محمد ذاکر حسین مغلوہوی متعلم دارالعلوم تنویر الاسلام امرڈوبھا ضلع بستی۔
زید کی شادی ہندہ سے ہوئی اور زید صاحب داڑھی ہے اور ابھی علم دین بھی حاصل کر رہا ہے شادی کے چند دن گزر جانے کے بعد ہندہ نے زید سے کہا کہ آپ شادی کے وقت میرے میکے میں داڑھی لے کر کیوں گئے تھے زید کو بہت زیادہ غصہ آیا اور ہندہ کو ڈانٹا سمجھایا اب جب ہندہ دوسری مرتبہ آئی تو اس نے کہا کہ آپ اپنے والدین اور بھائی سے کبھی بھی الگ نہیں ہوں گے؟ اس پر زید بہت خفا ہوا اور کہا کہ اس سے زیادہ اب مت بولنا وہ خاموش ہو گئی۔ زید کا غصہ ٹھنڈا ہوا اور ہندہ کو سمجھایا چنانچہ اس نے اقرار کیا کہ اچھا اب ایسا کبھی نہیں کہوں گی اب اس کے بعد سے خوشی سے رہنے لگی چنانچہ زید مدرسہ پر پڑھنے چلا گیا اب ہندہ کو گاؤں کی دو چار عورتیں مل کر سمجھانے لگیں کہ کسی کا کہنا نہ مانو چنانچہ ہندہ زید کے والدین کی بہت بڑی نافرمان بن گئی یہاں تک کہ زید جب گھر پر نہیں رہتا تھا تو ہندہ کے والدین سے زبان درازی کرنے لگتی تھی تو والدین کو اس سے بہت بڑی تکلیف ہو گئی یہاں تک کہ زید کے والدین نے اس سے کہہ دیا کہ اگر آپ کو اس کو رکھنا ہے تو میرے گھر سے نکل جاؤ۔ جب زید نے اتنا سنا تو اس کے دل میں آگ لگ گئی اور سوچا اب میرے والدین مجھ سے ناراض ہو جائیں گے تو آپ ہی بتایئے کہ جب وہ روٹھ جائیں تو دنیا اور عقبیٰ میں کہیں بھی ٹھکانہ نہ مل سکتا ہے؟ اب زید نے یہاں پر طلاق دینا واجب سمجھ لیا یہ نہ سمجھئے گا کہ صرف ماں باپ ہی کی نافرمانی کرتی تھی بلکہ زید کی بھی نافرمان تھی وہ یہ کہ ایک مرتبہ زید پیچش کی بیماری میں اس طرح مبتلا ہو گیا کہ چارپائی سے کوئی اٹھا کر بیٹھاتا تب جا کر بیٹھ پاتا تھا حتیٰ کہ جینے کی کوئی امید نہ رہ گئی تھی ایسے عالم میں بھی ہندہ زید کے پاس آنا مناسب نہیں سمجھتی تھی والدین رات بھر شب بیداری کر کے سینکائی اور دیکھ بھال کیا کرتے تھے اور ہندہ کو بھی تو معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے سکھا دیا ہو کہ اس کے قریب مت جانا۔ چنانچہ جب زید نے غصے میں آ کر ہندہ کو مار دیا اور کوئی زیادہ مارا بھی نہیں اس پر ہندہ پوری رات روتی رہ گئی اور ہفتوں تک ہندہ نے زید سے بات چیت کرنا ترک رکھا چنانچہ ایک روز زید کی بھابھی نے ہندہ سے کہا کہ جا کر ان سے معافی مانگ تو لو ہندہ نے کہا کہ اگر ان کو ستائیس مرتبہ غرض ہو گی تو وہ مجھ سے بولیں گے اب زید نے اتنا سنا تو اور بھی زیادہ غصہ لگا اور اسی غصے کے عالم میں اس نے ہندہ کو بیک وقت تین طلاقیں دے دیں۔ سوچا کہ میری وجہ سے میرے والدین مجھ سے ناراض ہو جائیں گے تو جب والدین ناراض ہو جائیں گے تو دنیا بھی خراب اور عقبیٰ بھی خراب میری رائے تو تھی ہی میرے والدین کی بھی یہی مرضی تھی کہ ہندہ کو طلاق دے دو چنانچہ زید نے اپنا کام تمام کر دیا بات ختم۔ اب دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب اس کے بارے میں فیصلہ ہوا تو گاؤں کے ایک مولانا صاحب تھے ان لوگوں نے بلوایا تو مولانا صاحب کہنے لگے کہ لڑکی چاہے ہزار غلطی کرے مگر پھر بھی وہ طلاق کے لائق نہیں ہے مولانا صاحب زبانی دلیل پیش کرنے لگے کہ اس بات کو مصطفے کے سامنے کہہ سکتا ہوں۔ اور ہندہ کے اندر یہ بھی صفت تھی کہ ایک دم جاہل اور ان پڑھ تھی نماز پڑھنے کا طریقہ معلوم نہیں تھا تو زید نے سوچا کہ اس کو کم ازکم اتنا تو پڑھا دیں کہ نماز پڑھ سکے اور کچھ دن تک پڑھایا بھی بغدادی قاعدہ ختم ہونے والا تھا مگر جب زید نے دیکھا کہ مکر و فریب اور دغابازی میں لگ گئی تو سوچا کہ اب نہیں پڑھ پائے گی اور نماز میرے ذمے ہو جائے گی اس طرح کی تمام باتیں ہیں تو بیان فرمائیں کہ اب اس حال میں طلاق دینا کیسا ہے؟ اور جو یہ کہے کہ لڑکی چاہے ہزار بار غلطی کرے مگر وہ طلاق کے لائق نہیں ہے اور دلیل پیش کرے کہ اس بات کو مصطفیٰ کے سامنے کہہ سکتا ہوں اس پر کیا حکم ہے اور وہ کیسا ہے اور ایسا کام کرنے سے جو حضرات مخالف ہو جائیں وہ کیسے ہیں؟ مدلل تحریر فرمائیں۔
الجواب: ہندہ کے بارے میں جو باتیں سوال میں درج ہیں اگر صحیح ہیں تو بیشک ہندہ اپنے شوہر زید اور اس کے والدین کو ایذا دینے والی تھی اور لائق طلاق تھی دینے کے سبب زید مستحق ملامت نہ ہوا لہٰذا جو شخص یہ کہتا ہے کہ لڑکی ہزار بار غلطی کرے مگر وہ لائق طلاق نہیں اور جو لوگ ایسی نافرمان عورت کو طلاق دینے کے سبب مخالف ہو گئے وہ سب غلطی پر ہیں بہار شریعت میں ہے کہ عورت شوہر کو یا اوروں کو ایذا دیتی ہو تو طلاق دینا مستحب ہے البتہ بیک وقت تین طلاقیں واقع کر دینے کے سبب زید گنہگار ہوا وہ توبہ کرے۔ ھٰذا ماعندی والعلم بالحق عند اللّٰہ تعالیٰ۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۲۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۳۹۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۲،ص:۱۳۰/۱۲۹)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند