زنا (ADULTERY) کے متعلق حکم شرعی
ZINA (ADULTERY) KE BARE MEN HUKME SHARA,I
ज़िना के बारे में हुक्मे शरई
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
_****************************************_
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ👇
زید جو ١٦ سال کا ہے اور ہندہ وہ بھی تقریباً ١٦ کی ہے. ہندہ کا کہنا ہے کہ زید نے اس کے ساتھ بغیر ہندہ کی مرضی کے اس سے زنا کیا. اور ہندہ نے قسم بھی کھائی کہ وہ اس فعل بد سے راضی نہ تھی. لاکھ اصرار کے باوجود زید نہیں مانا اور زنا کر بیٹھا. اب ہندہ اور زید کا کوئی رشتہ نہیں نہ وہ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں اور نہ ہی ملتے ہیں. اس فعل بد کے بعد ہندہ کو بہت افسوس ہوا. وہ اس فعل بد سے توبہ کرنا چاہتی ہے اور پابند شرع اور نماز بھی.اور بکر جو یہ سب جانتے ہوئے بھی ہندہ سے بات چیت کرتا ہے اور اس سے شادی بھی کرنا چاہتا ہے. یہ بات ہندہ زید اور بکر کے علاوہ کوئی نہیں جانتا. جواب طلب امر یہ ہے کہ زنا کے بارے میں کیا حکم ہے اور زید ہندہ اور بکر پر کیا حکم ہے. کیا بکر ہندہ سے شادی کر سکتا ہے. یہ حادثہ حقیقت پر مبنی ہے. اور یہ حادثہ دسمبر ٢٠١٩ کا ہے.
💢قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
💢سائل💢 +918853095941
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
صورت مسئولہ میں جواب یہ ہے کہ زنا کرنا،بے حیائی کا کام ،گناہ ،ناجائز و حرام اور جہنم کا مستحق بنانے والا کام ہے۔
زنا کے متعلق اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
ولا تقربوا الزنی انہ کان فاحشۃ وساء سبیلا
ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ
(پ 15سورہ بنی اسرائیل رکوع 4 آیت 32)
اور دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے:
والذین ہم لفروجہم حافظون۔
ترجمہ:اور مومن وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں
(پ 29 سورہ معارج ع 7 آیت 29)
اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:
و مایفعل ذلک یلق اثاما
ترجمہ:جو شخص زنا کرتا ہے اسے اثام میں ڈالا جائے گا
(پ 19 سورہ فرقان آیت 68)
👈اثام کے متعلق علمائے کرام نے کہا ہے کہ وہ جہنم کا ایک غار ہے جب اس کا منہ کھولا جائے گا تو اس کی بدبو سے تمام جہنمی چیخ اٹھیں گے
(مکاشفۃالقلوب باب 22 ص 167)
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ما ذنب بعد الشرک اعظم عنداللہ من نطفۃ وضعھا رجل فی رحم لایحل لہ ترجمہ شرک کے بعد اللہ کے نزدیک اس گناہ سے بڑا کوئی گناہ نہیں کہ ایک شخص کسی ایسی عورت سے صحبت کرے جو اس کی بیوی نہیں دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں اذا زنی العبد خرج منه الايمان فكان فوق راسه کالظلۃ ترجمه جب کوئی مرد اور عورت زنا کرتے ہیں تو ایمان ان کے سینے سے نکل کر سر پر سائے کی طرح ٹھہر جاتا ہے
(مکاشفۃالقلوب باب 22 ص 168)
حضرت عکرمہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا ایمان کس طرح نکل جاتا ہے حضرت ابن عباس نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالیں اور پھر نکالی اور فرمایا دیکھو اس طرح
(بخاری شریف ج 3 باب 968 حدیث نمبر 1713 ص 614)
حضرت ابوہریرہ و حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لا یزنی الزانی حین یزنی وھو مؤمن ترجمہ مومن ہوتے ہوئے تو کوئی زنا کر ہی نہیں سکتا
(بخاری شریف ج 3 باب 968 حدیث 1714 ص 614)
حیح بخاری شریف کی ایک طویل حدیث پاک کے ایک حصےمیں ہے:
”فانطلقنا،فاتینا علی مثل التنور، قال :فاحسب انہ کان یقول:فاذا فیہ لغط واصوات،قال فاطلعنا فیہ ،فاذا فیہ رجال ونساء عراۃ،واذاھم یاتیھم لھب من اسفل منھم، فاذا اتاھم ذلک اللھب ضوضوا
۔۔۔۔۔ اما الرجال والنساء العراۃ الذین فی مثل بناء التنور، فانھم الزناۃ والزوانی۔“
ترجمہ:ہم آگے چلے تو ہم تنور کی طرح ایک جگہ پرآئے،راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس تنور میں سے مختلف آوازیں آ رہی تھیں،فرمایا : ہم نے دیکھا کہ اس میں بے لباس مرد اورعورتیں ہیں ،ان کے نیچے آگ کے شعلے تھے ،جب وہ آگ ان کی طرف آتی تو وہ چیخ وپکارکرتے۔۔۔۔ فرشتوں نے بتایا کہ جو آپ نے بے لباس مرد وعورت تنورکی طرح جگہ میں دیکھے یہ زانی مرد اورعورتیں ہیں۔
(بخاری شریف جلد2،صفحہ585،مطبوعہ لاہور)
حضرت امام محمد غزالی رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں جس نے کسی غیر شادی شدہ عورت کا بوسہ لیا اس نے گویا 70 کنواری لڑکیوں سے زنا کیا اور جس نے کسی کنواری لڑکی سے زنا کیا تو گویا اس نے ستر ہزار شادی شدہ عورتوں سے زنا کیا
(مکاشفۃ القلوب باب 22 ص 170)
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ساتوں آسمان اور ساتوں زمین اور پہاڑ پر لعنت بھیجتے ہیں اور قیامت کے دن زناکار مرد و عورت کے شرمگاہ سے اس قدر بدبو آتی ہوگی کہ جہنم میں جلنے والوں کو بھی اس سے تکلیف پہنچے گی۔
( بہار شریعت)
یہ تمام سزائیں تو آخرت میں ملیں گی لیکن زنا کرنے والے پر شریعت نے دنیا میں بھی سزا مقرر کی ہے اسلامی حکومت ہو تو بادشاہ وقت یا پھر قاضی شرع اور ضروری ہے کہ جرم ثابت ہونے پر شریعت کے حکم کے تحت سزا دے حدیث پاک میں ہے کہ اگر کسی کو دنیا میں سزا نہ مل سکی تو آخرت میں اس کو سخت عذاب دیا جائے گا اگر دنیا میں سزا پا لیں تو پھر اللہ چاہے تو اسے معاف فرما دے
(((دنیا میں سزا )))
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے زناکار مرد و عورت کو سزا کا حکم دیا اور اس پر رسول اللہ نے عمل بھی کروایا قرآن پاک میں ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے الزانیۃ و الزانی فاجلدوا کل واحد منہما مائۃ جلدۃ ولا تاخذکم بہما رافۃ فی دین اللہ ان کنتم تؤمنون باللہ والیوم الاخر ولیشہد عذابہما طائفۃ من المؤمنین ترجمہ جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لائے اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو
(پ 18سورہ نور ع 7 آیت 2)
حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا للمحصن رجمۃ فی فضاحتی یموت و لغیر المحصن جلدۃ مائۃ ترجمہ زنا کرنے والے شادی شدہ ہو تو کھلے میدان میں سنگسار کیا جائے یعنی پتھروں سے مار کر جان سے ختم کر دیا جائے اور اگر زناکار غیر شادی شدہ ہو تو سو کوڑے مارے جائیں
(بخاری شریف جلد 3 باب 968 حدیث نمبر 1715 ص 516 )
حضرت شعبی نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ حین رجم المراۃ یوم الجمعۃ و قال قدر جمتھا بسنۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
(بخاری شریف ج 3 باب 975 حدیث نمبر 1716 ص 615)
حضرت حضرت علی نے جمعہ کے روز ایک زانی عورت کو سنگسار کیا تو فرمایا کہ میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سنت کے مطابق سنگسار کیا ہے عن جابر ان رجلا زنی بامراۃ فامر بہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم فجلد الحدثم اخبر انہ محصن فامر بہ یعنی حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی سے روایت ہی کہ ایک مرد نے ایک عورت سے زنا کیا تو حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اسے کوڑے لگوائے پھر خبر دی گئی وہ محصن( یعنی شادی شدہ) ہے تو حضور نے اسے سنگسار کردیا
(ابو داؤد جلد 2 صفحہ نمبر 209 کتاب الحدود مشکاۃ صفحہ 312 کتاب الحدود)
یعنی لوگوں نے پتھروں سے مار کر اسے ہلاک کردیا شادی شدہ زانی مرد عورت کو سنگسار کرنے اور غیر شادی شدہ زانی مرد عورت کو کوڑے لگانے کا حکم صحاح ستہ کے علاوہ احادیث کی تقریبا سبھی کتابوں میں موجود ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں یہاں طوالت کے خوف سے بخاری شریف دیگر کتابوں کی تین حدیثوں پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔
انتباہ
یہاں اگر حکومت اسلامیہ ہوتی تو زانی کو سو کوڑے مارے جاتے یا سنگسار کیا جاتا اس قدر پتھر مارا جاتا کہ وہ مر جاتا مگر اس حال میں زانی اور زانیہ کے لیے یہ حکم ہے کہ مسلمان ان کا پورے طور پر بائیکاٹ کرے ان کے ساتھ کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا سلام و کلام اور ہر قسم کےاسلامی تعلقات ختم کردیں تاوقتیکہ توبہ کرکے وہ اپنے گناہوں سے باز نہ آجائیں اگر مسلمان ایسا نہیں کریں گے تو وہ بھی گنہگار ہوں گے اور زنا حق اللہ کے علاوہ حقوق العباد بھی ہے لہذا اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کے علاوہ جس سے یہ کام کیا ہے اس کے قریبی رشتے داروں کے معاف کئے بغیر عذاب سے رہائی نہیں مل سکتی اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ ارشاد فرماتے ہیں زنا میں عورت کا حق ہوتا ہے جبکہ اس سے جبرا زنا کیا جائے اور اس کے باپ بھائی شوہر جس جس کو اس خبر سے تکلیف پہنچے گی ان سب کا حق ہے علماء کرام نے کہا کہ صاف صاف لفظوں میں ان سے معافی مانگے کہ میں نے یہ کام کیا ہے معافی چاہتا ہوں
(الملفوظ ج 3 ص 44)
ظاہر ہے ان سب سے معافی مانگنا آسان کام نہیں جس سے یہ کام کیا اس سے اور اس کے قریبی رشتے داروں کے معاف کیے بغیر یہ گناہ معاف نہ ہوگا اور بندوں کے معاف کر دینے کے بعد بھی اب یہ اللہ تعالی کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اس گناہ کو معاف فرما دے اور عذاب جہنم سے نجات بخشے اللہ تعالی ہماری زنا جیسے خبیث گناہ سے حفاظت فرمائے آمین
لہذا ان دونوں پر(یعنی زید و ہندہ پر فرض ہے کی وہ توبہ و استغفار کرے اور کچھ صدقہ و خیرات کرے دینی مدرسہ میں کچھ بطور امداد دے یا کچھ غریب و نادر مسلمانوں کو کھانا کھلائے کیونکہ حسب ارشاد حدیث صدقہ کو قبولیت توبہ میں بڑی تاثیر ہے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ان الصدقۃ لتطفئ غضب الرب
اور رہی بات بکر کی حالانکہ وہ زید اور ہندہ کے فعل بد کو جانتا ہے اس کے باوجود وہ ہندہ سے شادی کرنا چاہتا ہے لہذا بکر ہندہ سے شادی کرسکتاہے شرعا کوٸی قباحت نہیں اور بکر لاٸق مبارک باد ہے جو یہ سب جانتے ہوئے شادی کے لٸے راضی ہے ورنہ اس دور میں اگر کسی کوپتہ چل جاے کہ فلاں لڑکی بدچلن ہے تو کوٸی اس سے شادی کے لٸے تیار نہیں ہوتا ہے
رہی بات بکر و ہندہ کی آپس میں بات چیت کرنے اس خے متعلق شریعت مطہرہ میں یہ حکم ہے کہ بغیر شادی شدہ کے لڑکے اور لڑکیوں کا آپس میں دوستی کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے اگر عورتوں کو غیر محرم مردوں سے بات کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو نگاہ بچاکر،سخت لہجہ اور آواز میں بات کرنی چاہیے، جیساکہ قرآنِ پاک (سورہ احزاب) میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو (امہات المؤمنین ہونے کےباجود) ہدایت کی گئی کہ اگر کسی امتی سے بات چیت کی نوبت آجائے تو نرم گفتگو نہ کریں؛ مبادا اس شخص کے دل میں کوئی طمع نہ پیدا ہوجائے جو دل کا مریض ہو، بلکہ صاف اور دوٹوک بات کہیں۔جیساکہ
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے يٰـنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَـلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِيْ فِيْ قَلْبِهِ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo یعنی
اے نبی کی بیبیو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر اللہ سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کرو کہ دل کا روگی کچھ لالچ کرے ہاں اچھی بات کہو
(پ11سورہ احزاب آیت مبارکہ 32)
مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو مخاطب کر کے قیامت تک آنے والی تمام عورتوں کو تعلیم دی ہے کہ کسی غیر محرم مرد سے ضروری بات کرتے وقت نرم لہجہ نہ اختیار کرنا کیونکہ جب بھی عورت غیر مرد سے نرم لہجہ اپناتی ہے یا لچک دکھاتی ہے تو بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔
فقہاء کرام و علماء عظام نے لکھا ہے کہ اگر کسی ضرورت اور مجبوری سے نامحرم سے بات کرنی پڑے تو بہت مختصر بات کریں، ہاں، ناں کا جواب دے کر بات ختم کرڈالیں، جہاں تک ممکن ہو آواز پست رکھیں اور لہجہ میں کشش پیدا نہ ہونے دیں۔
👈در مختار میں ہے
فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة ”.
(در مختار ج 3 ص 72)
اور احادیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا تَلِجُوا عَلَی الْمُغِیبَاتِ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ أَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِ قُلْنَا وَمِنْکَ قَالَ وَمِنِّي وَلَکِنَّ اﷲَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمُ.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جن عورتوں کے خاوند موجود نہ ہوں ان کے پاس نہ جاؤ کیونکہ شیطان تمہاری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ حضرت جابر فرماتے ہیں ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے لیے بھی ایسا ہی ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے لیے بھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس پر میری مدد فرمائی اور وہ (میرا ہمزاد) مسلمان ہو گیا۔
(أحمد بن حنبل، المسند، جلد 3 صفحہ 309، رقم الحدیث 14364، مؤسسة قرطبة مصر)
(ترمذي، السنن جلد 3 صفحہ 475، رقم الحدیث 1172، دار احياء التراث العربي بيروت)
(طبراني، المعجم الکبير، جلد 9: صفحہ 14، رقم الحدیث 8984، مکتبة الزهراء الموصل)
حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ إِيَاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاءِ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اﷲِ أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ قَالَ الْحَمْوُ الْمَوْتُ. یعنی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تنہا عورت (نامحرم) کے پاس جانے سے پرہیز کرو۔ انصار سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ! دیور کے بارے میں کیا ارشاد ہے؟ فرمایا: دیور تو موت ہے۔
(بخاري شریف 5: 2005، رقم الحدیث 4934، دار ابن کثير اليمامة بيروت)
(مسلم، الصحيح، 4: صفحہ 1711، رقم الحدیث 2172، دار احياء التراث العربي بيروت)
(أحمد بن حنبل، المسند جلد 4: صفحہ 149، رقم الحدیث 17385)
(ترمذي، السنن، 3: 474، رقم الحدیث 1171)
اس حدیث مبارکہ میں صرف دیور نہیں بلکہ تمام غیر محرم رشتے مثلاً جیٹھ، چچا زاد، ماموں زاد، خالہ زاد، پھو پھی زاد وغیرہ سب شامل ہیں۔
حدیث مبارکہ میں ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً وَاکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا قَالَ ارْجِعْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ. یعنی حضرت ابن عباسٍ رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تنہائی میں کوئی شخص کسی عورت کے پاس نہ جائے مگر اس کے ذی محرم کے ساتھ تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر عرض کی کہ یا رسول اﷲ! میری بیوی حج کرنے جا رہی ہے اور میرا نام فلاں غزوہ میں لکھ لیا گیا ہے۔ فرمایا کہ غزوہ میں نہ جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔
(بخاري، الصحيح، 5: 2005، رقم: 4935)
(مسلم، الصحيح، 2: 978، رقم: 1341)
(أحمد بن حنبل، المسند، 1: 222، رقم: 1934)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ بغیر شادی شدہ کے کسی سے بات چیت کرنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے لہذا بکر و ہندہ کا آپس میں بات چیت کرنا جائز نہیں ہے ان پر ضروری ہےکہ وہ اپنے اس فعل سے پرہیز کریں اور آئندہ ایسا فعل نہ کرنے کا عہد کریں جب تک کہ ان دونوں کی شادی نہ ہو جائے
_****************************************_
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی ارشدی نائےگائوں ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا مدرس جامعہ قادریہ رضویہ ردرور منڈل ضلع نظام آباد تلنگانہ الھند ـبتاریخ ۲۷/ جنوری بروز پیر ۲۰۲۰ عیسوی
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) كراچی
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد اسلام خان رضوی مصباحی صاحب قبلہ صدر المدرسین مدرسہ گلشن رضا کولمبی ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
ماشاءاللہ بہت خوب الجواب’ ھو الجواب واللہ ھوالمجیب المصیب المثاب فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ)
الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط *محمداسماعیل خان امجدی* رضوی دارالعلوم شہیداعظم دولھاپورپہاڑی پوسٹ انٹیاتھوک تھانہ ضلع گونڈہ یوپی الھند
الجوابــــــ صحیح والمجیبـــــ نجیح فقط محمدامجدعلی نعیمی،رائےگنج اتر دیناج پور مغربی بنگال،خطیب وامام مسجدنیم والی مرادآبا اترپردیش الھند
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁