تاڑی پینا عند الشرع کیسا ہے؟ نیز تاڑی پینے والے کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟ TADHI PINA KAISA HAI? AUR PINE WALE KE MUTALIQ HUKME SHARA,I KYA HAI? ताड़ी पिना कैसा है? और पाने वाले के मुतअ ल्लिक हुक्मे शरई क्या है?

 تاڑی پینا عند الشرع کیسا ہے؟

نیز تاڑی پینے والے کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟
TADHI PINA KAISA HAI?
AUR PINE WALE KE MUTALIQ HUKME SHARA,I KYA HAI?
ताड़ी पिना कैसा है?
और पाने वाले के मुतअ ल्लिक हुक्मे शरई क्या है?
کیا فرماتے ہیں مفتیان اہلسنت ہمدرد قوم و ملت مسلہ ذیل میں کہ
تاڑی پینا عند الشرع کیسا ہے؟
نیز تاڑی پینے والے کے متعلق حکم شرعی کیا ہے؟
اس کا جواب شرع کی روشنی میں عطا فرماکر احسان فرمائیں ۔
المستفتی:مولانا محمد سراج احمد امجدی رضوی مکھیڑ ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب
تاڑی پینا عند الشرع ناجائز و حرام اور گناہ ہے کیونکہ تاڑی تاڑ کی ہو یا کھجور کی نشہ لانے والی چیز ہے اور ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔ لہٰذا تاڑی قلیل ہو یا کثیر اس کا پینا حرام و گناہِ کبیرہ ہے۔ نیز تاڑی نجس بنجاستِ غلیظہ ہے۔ ترمذی شریف جلد ثانی ص ۸؍ پر فرمان سید ذیشان علیہ الصلوٰۃ والسلام ہے۔
کل مسکر خمر و کل مسکر حرام۔
یعنی ہر نشہ لانے والی چیز شراب ہے اور ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔
ترمذی شریف جلد ثانی علیمی ص ۹ پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
کل شراب اسکر فھو حرام۔
ہر وہ مشروب جس نے نشے کی کیفیت پیدا کردی، وہ حرام ہے۔
نیز اسی صفحہ پر ہے۔
کل مسکر حرام۔
یعنی ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے۔
اسی صفحہ میں حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
ما اسکر کثیرہ فقلیلہ حرام۔
یعنی جس چیز کی مقدار کثیر نشہ لائے تو اس کی مقدار قلیل بھی حرام ہے۔
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ
تاڑی فی نفسہٖ ایک درخت کاعرق ہے۔ جب تک اس میں جوش وسکر نہ آئے طیب وحلال ہے جیسے شیرہ ا نگور ، لوگوں کا بیان ہے کہ اگر کور اگھڑاوقت مغر ب باندھیں اور وقت طلوع اتار کر اسی وقت استعال کریں تو اس میں جوش نہیں آتا۔ اگر یہ امر ثابت ہو تو اس وقت تک وہ حلال وطاہر ہوتی ہے۔ جب جوش لائے ناپاک وحرام ہوئی، مگر اس میں تنقیح طلب یہ امر ہے کہ آیا حرارت ہوا بھی چند گھنٹے یا چند پہر ٹھہرنے کے بعد اس عرق میں جوش وتغیر لاتی ہے یانہیں، اگر ثابت ہو تو شام کے وقت تاڑی چند پیڑوں سے بقدر معتدبہ نکال کر کسی ظرف میں بند کرکے صبح تک رکھ چھوڑیں تو ہرگز متغیر نہ ہوگی جب تک آفتاب نکل کر دیر تک دھوپ سے اس میں فعل نہ کرے جوش نہیں لاتی تو اس صورت میں وہ بیان مذکور ضرور پایہ ثبوت کو پہنچے گا ورنہ صراحت معلوم ہے کہ شام کو جو گھڑا لگایا جائے گا تاڑی اس میں صبح تک بتدریج آیا کرے گی تو وہ اجزاء کہ اول شام آئے تھے طول مدت کے سبب حرارت ہو اسے ان کا تغیر منظنون ہے اور جوش وتغیر محسوس نہ ہونا اس وجہ سے ہے کہ وہ اجزاء جنھیں مدت اس قدر نہ گزرے کہ ہنوز تغیر کی حد تک نہ پہنچے کثیروغالب میں اس تقدیر پر اس سے احتراز میں سلامتی ہے
(فتاوی رضویہ،ج:۲۱،ص:۱۳۵)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ
تاڑی بیشک حرام ہے کہ اس میں نشہ ہوتا ہے۔
(فتاویٰ امجدیہ جلد اوّل ص ۱۹۰)
فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
تاڑی نشہ آور ہے اور ہر نشہ والی چیز حرام ہے حدیث شریف میں ہے: کل مسکر حرام۔
(فتاوی فیض الرسول،ج:۲،ص:۳۴۸)
فقیہ اسلام قاضی القضاۃ فی الھند تاج الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد اختر رضا خان قادری رضوی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
تاڑی خواہ تاڑکی ہو خواہ کھجور کی ناجائز ہے کہ اس میں نشہ ہوتا ہے اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔ لحدیث احمد:
عن ام سلمۃ قالت نہٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن کل مسکر و مفترٍ۔ الخ۔کذا فی الدر المختار شرح تنویر الابصار۔[الدرالمختار کتاب الاشربۃ ج۱۰،ص ۴۳مطبع،دارالکتب العلمیۃ، بیروت]
(فتاوی تاج الشریعہ،ج:۲،ص:۴۴۹)
مگر سنا جاتا ہے کہ اگر صاف برتن تاڑ یا کھجور کے درخت میں بعد غروب آفتاب لگایا جائے اور قبل طلوع اتاراجائے تو اس تاڑی میں نشہ نہیں ہوتا ہے اگر فی الحقیقۃ ایسا ہے تو پینے میں کوئی حرج نہیں۔
رہی بات پینے والے کے متعلق اگر پینے والا قبل طلوع آفتاب کے پیا تو کوئی گناہ نہیں اگر بعد طلوع آفتاب کے پیا تو شرعا فاسق و مرتکب گناہ کبیرہ ہے اگر نشہ پینے والے کو آئے تو وہ شرعا اسی کوڑے کی سزا کا مستحق ہے۔
در مختار مصری جلد خامس ص ۳۲۳ میں ہے۔
حرمھا محمد ای الاشربۃ المتخذۃ من العسل والتبن و نحوھما قالہ المصنف مطلقا قلیلھا و کثیرھا و بہ یفتی … و قال محمد ما اسکر کثیرہ فقلیلہ حرام و ھو نجس ایضاولو اسکر منھا المختار فی زماننا انہ یحد (ملخصا)۔
یعنی:شہد اور انجیر وغیرہ سے جو مشروب بنائی جائے اسے امام محمد علیہ الرحمۃ نے حرام کہا ہے۔ مصنف نے یہ بات مطلقا کہی کم ہو یا زیادہ۔ اسی کے مطابق فتویٰ دیا جاتا ہے۔ امام محمد علیہ الرحمۃ نے کہا ’’جس چیز کی مقدارِ کثیر نشہ لائے تو اس کی مقدارِ قلیل بھی حرام ہے۔ ‘‘ اور وہ ناپاک بھی ہے۔ اگر اس کے پینے سے نشہ آگیا تو ہمارے زمانہ میں قول مختار یہی ہے کہ اس پر حد جاری کیا جائے گا۔
ردالمحتار جلد خامس ص ۳۲۴ میں ہے۔
فی غرر الافکار ھذہ الا شربہ عند محمد و موافقیہ کخمر بلا تفاوت فی الاحکام و بھذا یفتی فی زماننا فخصَّ الخلاف بالاشربۃ و ظاہر قولہ بلا تفاوت ان نجاستھا غلیظہ فتنبہ لکن یستثنی منہ الحد فانہ لا یجب الا بالسکر۔
یعنی:غرر الافکار میں ہے۔ یہ مشروبات امام محمد اور ان کے موافقین کے نزدیک مثل شراب کے ہیں۔ ان کے احکام میں کوئی تفاوت نہیں ہے۔ اسی پر ہمارے زمانہ میں فتویٰ دیا جاتا ہے۔ … ان کے قول بلا تفاوت کا ظاہر یہی ہے کہ ان مشروبات کی نجاست غلیظہ ہے لیکن حد کو اس سے مستثنی کر دیا ہے کیونکہ نشہ ہی کی صورت میں حد واجب ہوگا۔
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند 8390418344

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top