خدا نے اپنے سے اونچا کیا رتبہ محمد کا
بڑھا کرشان اپنے سے کیا دو بالا محمد کا
KHUDA NE APNE SE UNCHA KIYA RUTBAA MUHAMMAD KA
BADHA KAR SHAAN APNE SE KIYA DO BAALA MUHAMMAD KA
खुदा ने अपने से ऊंचा किया रुतबा मुहम्मद का
बड़ा कर शान अपने से किया दो बाला मुहम्मद का
اس شیر کے متعلق حکم شرعی
IS SHER KE MUTALIQ HUKME SHARA,I
इस शेर के मुतअलिक़ हुक्मे शरई
مسئولہ شیخ ابوالحسن بقائی ، فیل خانہ، ہوڑہ، کلکتہ بنگال ۲ رر جب ۱۴۱۰ھ
ایک محفل سماع میں یہ کلام پڑھا جا رہا تھا کہ
خدا نے اپنے سے اونچا کیا رتبہ محمد کا
بڑھا کرشان اپنے سے کیا دو بال محمد کا
ابھی کلام شروع ہی ہوا تھا کہ زید اپنی کوٹھی سے اترا اور آتے ہی کفر کا فتوئی کھڑا کر دیا اور کہا کہ یہ کلام کفر پڑھنا ناجائز و حرام، اس کا قائل کافر اور سامعین وغیرہ بھی کافر، یہ بھی کہا کہ کافر کی اولاد مزید سامعین و متکلمین کو مردود وملعون و دیوث وغیرہ الفاظ سے خطاب کیا، بغیر کچھ دلیل کے محفل سماع کو بند کروادیا اور اس نے یہ بھی کہا کہ محفل سماع ناجائز و حرام ہے، شرم نہیں آتی، بند کرو یہ سب خرافات واہیات ہے۔ آیا واقعی محفل سماع ناجائز وحرام یا کفر ہے، جب کہ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے محفل سماع کی مکمل بحث اپنی کتاب ” کیمیائے سعادت میں کی جس میں کہا جائز ومباح۔ اگر واقعی یہ کلام کفر ہے تو کون سا کفر ہے۔ کفر فقہی یا کفر کلامی ہے یا نہیں جب کہ قائل تاویل کرنا چاہتا تھا مگر زید نے کہا کہ سوال پر سوال نہیں۔ دیگر ان فحش گالیوں کا سنی مسلمان کو دینا بلکہ یہ بھی کہا کہ تم سب وہابی سے بھی بدتر ہو۔ لہذا زید نے ان گالیوں سے مسلمانوں کو خطاب کیا ، کیا اس کا گالی دینا شریف انسان کا کام ہے۔ اور یہ کہا کہ بڑی بڑی داڑھی اور بڑے بڑے بال رکھ کر فلمی ڈسکو ناچنتے ہو تو کیا عالم علما کی زبانی سنا ہے کہ فحش گالی سے کلام کرنا، یہ بد اصولوں کا شیوہ ہے۔ زید پر شریعت کا کیا حکم نافذ ہوتا ہے، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب تفصیل سے نوازیں، مہربانی ہوگی۔
الجواب
اس شعر کے دونوں مصرعے بظاہر کفر ہیں۔ شعر سن کر سب کے سمجھنے میں یہی آتا ہے کہ ، اس شعر کا مطلب ہے کہ اللہ عزوجل نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ اپنے سے بھی اونچا اور دو بالا کیا، اور اس کے کفر ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اس بنا پر اگر کسی نے قائل کو کافر کہ دیا تو وہ ماخوذ نہیں۔ جمہور فقہا کا یہی مسلک ہے کہ اگر کسی کلام کا ظاہر معنی کفر ہو تو وہ تکفیر کرتے ہیں۔ مگر اس کلام کی تاویل ممکن ہے۔ عرف میں بولتے ہیں، فلاں نے اپنے سے یہ کام کیا ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بغیر کسی کے کہے ، دباؤ ڈالے اپنی مرضی سے کیا۔ اس شعر میں یہ معنی بھی بن سکتا ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ اللہ عزوجل نے اپنے سے، اپنی مرضی سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو اونچا کیا اور ان کی شان کو دوبالا کیا، اور یہ معنی اپنی جگہ درست ہے۔ اس لیے محققین فقہا اور متکلمین کے مذہب مختار پر قائل کو کافر کہنا درست نہیں۔ مگر اس قدر میں کلام نہیں کہ اس شعر کا قائل اور قوال اور سب سامعین پر توبہ و تجدید ایمان و تجدید بیعت و تجدید نکاح ہے۔ در مختار میں ہے:
” وما فيه خلاف يؤمر بالتوبة والاستغفار
(در مختار ج : ٦ ، ص : ٣٩٠، كتاب الجهاد باب المرتد، مطبع زكريا)
یہ دوسری بات ہے کہ زید کو اس بیہودگی اور بدتمیزی کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہیے تھی، رفق ، نرمی اور محبت سے سمجھانا چاہیے تھا۔ مسلمان کو گالی دینا حرام اور فسق ہے۔
حدیث میں ہے:
امرنی ربی بمحق المعازف۔
یعنی:مجھے میرے پروردگار نے باجوں کے مٹانے کا حکم دیا۔
(مشکوة شريف ، ص: ۳۱۸، باب الخمر، مطبع مجلس بركات، جامعه اشرفيه)
ہدایہ میں ہے:
” ان الملاهي كلها حرام.
(هدایه اخیرين، ج: ٤ ، ص : ٤٣٩، كتاب الكراهة، مطبع مجلس بركات، جامعه اشرفيه)
حضرت سیدنا نظام الشریعه والطریقہ والحقیقہ والدین محبوب الہی قدس سرہ کا ارشاد ” فوائد الفواد اور سیر الاولیا میں منقول ہے کہ، فرمایا: ” مزامیر حرام است “ اور حضرت امام غزالی قدس سرہ نے ” کیمیائے سعادت میں جو کچھ تحریر فرمایا ، وہ خاص شرائط کے ساتھ خاص حالات میں کسی مرشد کامل، جامع شریعت و طریقت مرشد کی خصوصی ہدایت کے بعد ہے۔ اس کے شرائط میں سے خاص شرط یہ ہے کہ قوال اور سب سامعین اس کے اہل ہوں ۔ اور یہ جو آج کل کے جاہل پیروں نے رسم بنا رکھی ہے کہ بلاضرورت فساق، فجار قوال و سامعین غیر اہل کی موجودگی میں مجمع عام میں علانیہ قوالیاں سنتے اور سناتے ہیں، بالا تفاق حرام ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
شارح بخاری فقیہ اعظم ہند حضرت العلام مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ
(فتاوی شارح بخاری،ج:۱،ص:۱۱۹،کتاب العقائد،عقائد متعلقہ ذات و صفات الہی)
از قلم:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند 8390418344