کیا مالک نصاب پر حج فرض ہے؟
KYA MALIKE NISAAB PAR HAJ FARZ HAI?
क्या मलिके निसाब पर हज फ़र्ज है?
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلے ھذا میں کہ
کیا حج صاحب نصاب ہونے پر فرض ہوتا ہےاور ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم پر حج فرض ہوگیا ہے
رہنمائی فرمائیں کرم نوازش ہو گی
(سائل:رضا کراچی)
عند الشرع حج صاحب نصاب پر نہیں بلکہ مسلمان عاقل بالغ آزاد تندرست صاحب استطاعت پر حج فرض ہوتا ہے اور صاحب استطاعت ہونے کا یہ مطلب ہے کہ آدمی کے پاس مکہ معظمہ سواری پر جانے اور وہاں سے واپسی تک کا سفر خرچ اور کرایہ کے ساتھ اہل وعیال کا نفقہ اور مکان کی مرمت کے لیے حسب ضرورت مال ہو ۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَِﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلاً.
یعنی: اور اللہ کے واسطے لوگوں پر کعبہ کا حج ہے وہ جو طاقت رکھے اس کی طرف راستہ کی۔
(پ:۴،سورۂ آل عمران،آیت نمبر:۹۷)
اس آیت کے فوائد بیان کرتے ہوئے حکیم الامت حضرت العلام مولانا مفتی محمد احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
حج ہر مسلمان پر فرض نہیں بلکہ اس پر جو توشہ،سواری وغیرہ پر قادر ہو جیسا کہ من استطاع سے معلوم ہوا۔
(تفسیر نعیمی پارہ:۴،سورۂ آل عمران،آیت نمبر:۹۷،ص:۳۳،ج:۴)
ہدایہ میں ہے:
الحج واجب علی الأحرار البالغین العقلاء الأصحاء إذا قدروا على الزاد والراحلة فاضلاً عن المسکن، وما لا بد منه، وعن نفقة عیاله إلى حین عوده، وكان الطریق آمناً ووصفه الوجوب۔
(الهداية، كتاب الحج،ج:۱،ص:۲۴۹، ط: مكتبة رحمانية، لاهور)
تبیین الحقائق میں ہے:
فرض مرة على الفور حرية وبلوغ و عقل و صحة مال وقدرة زاد وراحلة فضلت عن مسكنه وعما لا بد منه و نفقة ذهابه وايابه و عياله۔
(تبیین الحقائق،کتاب الحج،ج:۲،ص:۲۳۵)
البحر الرائق:
ھو فرض مرۃ علی الفور بشرط حریۃ وبلوغ وعقل وصحۃ وقدرۃ زاد و راحلۃ فضلت عن مسکنہ عن لا بدمنہ نفقۃ ذھا بہ وایا بہ وعییالہ وامن طریق (کنز) وحقیقۃ امن الطریق ان یکون الغالب فیہ السلامۃ کما اختارہ الفقیہ ابو اللیث وعلیہ الاعتماد۔
(کتاب الحج،ج:۲،ص:۲۳۸،ط: سعید)
اور فتاوی عالمگیری میں ہے:
وتفسير ملك الزاد و الراحلة ان يكون له مال فـاضـل عن حاجته و هو ما سوى مسكنه و لبسه و خدمه و اثاث بيته قدرما يبلغه الى مكة ذاهبا و جائيا راكبا۔
(الفتاوی العالمگیریۃ کتاب المناسک،ج:۱،ص:۱۱۷)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں:
حج فرض ہونے کی آٹھ شرطیں ہیں:
(۱)مسلمان ہونا۔
(۲)دار الحرب میں ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ جانتا ہو کہ اسلام کے فرائض میں حج ہے۔
(۳)بالغ ہونا۔
(۴) عاقل ہونا۔
(۵) آزاد ہونا۔
(۶) تندرست ہوکہ حج کو جا سکے۔
(۷)سفر خرچ کا مالک ہو اور سواری پر قادر ہو سواری اس کی ملک ہو یا اس کے پاس اتنا مال ہو کہ کرایہ پر لے سکے۔
(۸)وقت یعنی حج کے مہینوں میں تمام شرائط پائےجائیں۔
(بہار شریعت،ج:۱،ص:۱۰۴۴تا۱۰۵۰)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ اگر کسی آدمی کے اندر اتنے شرائط پائے جائیں تو اس پر حج فورا فرض ہوگیا یعنی اسی سال اور بلا وجہ شرعی تاخیر گناہ ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
و هو فرض على الفور و هو الاصح فلا يباح له التاخير بعد الامكان الى العام الثاني كذا في خزانة المفتيين۔
(الفتاوی العالمگیریۃ کتاب المناسک،ج:۱،ص:۱۱۷)
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند