IS HADEES KI TAUJEEH इस हदीस की तौजीह

 رأيت ربي في سكك المدينة کی توجیہ

IS HADEES KI TAUJEEH
इस हदीस की तौजीह
مسئولہ سرور حسین صاحب محله بشنی پور بلیا ( یو. بي. ) ، ۵/ ربیع الآخر ۱۴۰۰۰ھ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام اس مسئلہ میں کہ ایک عالم نے اپنی تقریر میں یہ کہا کہ یہ بات ثابت ہے کہ صحابہ کبار یہ کہا کرتے تھے کہ میں نے مدینہ میں خدا کو چلتے پھرتے دیکھا ہے، پھر یہ کہا کہ حضور نے فرمایا ہے۔ من رأني فقد رأى الحق جس نے مجھ کو دیکھا اس نے خدا ہی کو دیکھا یہ بھی کہا کہ رخ مصطفیٰ میں خدا نظر آتا ہے۔ ان عالم صاحب کے یہ اقوال کہاں تک صحیح ہیں اور پوری حدیث کیا ہے اور اس کا صحیح مطلب علمائے اہل سنت کے نزدیک کیا ہے؟ بینوا .
الجواب
میں ساڑھے تین ماہ سے مسلسل آنکھ کی شدید تکلیف میں مبتلا ہوں ، اس لیے اس مسئلہ پر تفصیلی کلام کرنے سے قاصر ہوں، پڑھنا لکھنا بند ہے۔ مختصر عرض ہے کہ ایسی کوئی حدیث نہیں کہ کسی صحابی نے یہ کہا ہو کہ میں نے خدا کو مدینہ میں چلتے پھرتے دیکھا ہے، ہاں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد ضرور منقول ہے۔
رایت ربی فی سکک المدينة میں نے اپنے پالنے والے کو مدینہ کی گلیوں میں دیکھا ہے۔ اس کی دو تاویل ہے، ایک رب کے معنی لغوی مراد ہے۔ یعنی پالنے والا ، پرورش کرنے والا یہ محاورہ قرآن کریم میں موجود ہے حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کے بارے میں فرمایا:
إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثوای
یعنی:وہ میرا پرورش کرنے والا ہے اس نے مجھے اچھا ٹھکانہ دیا۔
(قرآن شریف، سورة اليوسف آیت ۲۳ ، پ ۱۲۰ ۱۲۲۔)
دوسری تاویل یہ ہے کہ ( رایت) دیکھا میں نے اُسے بیداری میں دیکھنا مراد نہیں ہے، بلکہ خواب میں دیکھنا مراد ہے۔ یہ محاورہ بھی قرآن کریم میں موجود ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام فرماتے ہیں: انٹی رأيْتُ أحد عشر كوكبا الآية
(قرآن شریف، سورة اليوسف آیت :۴ پ:۱۲)
ایک تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں نے رب تبارک و تعالیٰ کا جلوہ مدینہ میں دیکھا۔ جلوہ سے مراد تجلیات ربانی ہیں۔
حدیث ” من رانی فقد رائ الحق
(بخاری شریف، ج:۲، ص:۱۰۳۶)
میں الحق سے مراد یقینی واقعی ہے۔ اس پر دلیل حدیث کا دوسرا ٹکڑا ہے:
” فإن الشيطن لا يتمثل بی۔
(بخاری شریف، ج:۲، ص:۱۰۳۶)
حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے واقعی مجھی کو دیکھا ، اس لیے کہ شیطان میری شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ اس حدیث میں الحق سے مراد اللہ تعالی بھی ہو سکتا ہے، اور مراد یہی ہوگا ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ ” میں تحریر فرمایا ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مرأت ذات الہی ہیں۔ یہ کہنا کہ رخ مصطفیٰ میں خدا نظر آتا ہے، مذکور شد ہ معنی کے اعتبار سے درست ہے۔ یعنی یہ کہ رخ مصطفی میں خدا کا جلوہ نظر آتا ہے۔ اس کی تائید اس حدیث صحیح سے ہوتی ہے:
“خلق آدم علی صورته۔
(بخاری شریف ، ج:۲،ص ۹۱۹، كتاب الاستیذان باب بدء الاسلام، رضا اکیڈمی)
الله عز وجل صورت پاک سے مراد وہی ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنی تجلی خاص حضرت آدم علیہ السلام کی ذات میں ودیعت فرمائی۔ علما کو لازم ہے کہ ایسی باتوں کو بیان کرنے سے عوام کے سامنے اجتناب کریں، جو عوام کی سمجھ سے بالا تر ہوں، جن کو سن کر لوگ تشویش میں مبتلا ہوں ۔
واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
شارح بخاری فقیہ اعظم ہند حضرت العلام مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ
(فتاوی شارح بخاری،ج:۱،ص:۱۲۰،کتاب العقائد،عقائد متعلقہ ذات و صفات الہی)
از قلم:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند 8390418344

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top