ابن تیمیہ کون تھا اور اس کے خیالات کیسے تھے؟
مسئلہ:
از محمد طاہر پاشاہ بنکا پور (کرناٹک)
بعض لوگ ابن تیمیہ کی بہت تعرلیف کرتے ہیں ابن تیمیہ کون تھا اور اس کے خیالات کیسے تھے؟
بینوا توجروا
الجواب: بعون المولٰی تعالٰی ورسولہُ الاعلی۔
جو لوگ ابن تیمیہ کی بہت تعریف کرتے ہیں یا تو وہ لوگ گمراہ وبدمذہب ہیں اور یا تو انہیں ابن تیمیہ کے بارے میں صحیح معلومات نہیں کہ وہ گمراہ و بدمذہب آدمی تھا اس نے بہت سے مسائل میں خرق اجماع کیا اور دین میں بہت سے فتنے پیدا کئے۔
جیسا کہ فتاویٰ حدیثیہ میں ہے:
اعلم انہ خالف الناس فی مسائل نبہ علیھا التاج السبکی وغیرہ۔ فما خرق فیہ الاجماع قولہ ان طلاق الحائض لایقع وکذا الطلاق فی طھرجا مع فیہ۔ وان الصلاۃ اذا ترکت عمداً لایحب قضاء ھا۔ وان الحائض یباح لھا الطواف بالبیت ولاکفارۃ علیھا۔ وان الطلاق الثلاث یرد الی واحدۃ۔ وان المائعات لاتنجس بموت حیوان فیھا کالفارۃ۔ وان الجنب یصلی تطوعہ باللیل ولایؤخرہ الی ان یغتسل قبل الفجر وان کان بالبلد۔ وان مخالف الاجماع لایکفرو ولا یفسق۔ وان ربنا محل الحوادث۔ وقولہ بالجسمیۃ والجھۃ والانتقال وانہ بقدر العرش لااصغر ولااکبر۔ وقال ان النار تفنی۔ وان الانبیاء غیر معصومین وان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لاجاہ لہ ولایتوسل بہ۔ وان انشاء السفر الیہ بسبب الزیارۃ معصیۃ لاتقصر الصلاۃ فیہ وسیحرم ذٰلک یوم الحاجۃ ماسۃ الی شفاعتہ اھ تلخیصًا۔
یعنی ابن تیمیہ نے بہت سے مسائل میں علمائے حق کی مخالفت کی ہے جس کی نشاندہی حضرت امام تاج الدین سبکی وغیرہ نے کی ہے‘ تو جن مسائل میں اس نے خرق اجماع کیا ہے ان میں سے چند یہ ہیں: حالت حیض میں اور جس طہر میں ہمبستری کی ہے طلاق واقع نہیں ہوتی اور نماز اگر قصداً چھوڑ دی جائے تو اس کی قضا واجب نہیں‘ اور حالت حیض میں بیت اللہ شریف کا طواف کرنا جائز ہے‘ اور کوئی کفارہ نہیں اور تین طلاق سے ایک ہی طلاق پڑتی ہے‘ اور تیل وغیرہ پتلی چیزیں چوہے وغیرہ کے مرنے سے نجس نہیں ہوتیں‘ اور بعد ہمبستری کے غسل کرنے سے پہلے رات میں نفل نماز پڑھنا جائز ہے اگرچہ شہر میں ہو‘ اور جو شخص اجماع امت کی مخالفت کرے اسے کافر و فاسق نہیں قرار دیا جائے گا‘ اور خداتعالیٰ کی ذات میں تغیر وتبدل ہوتا ہے‘ اور اللہ تعالیٰ کے جسم ہونے اور اس کے لئے جہت اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا قائل ہے‘ اور کہتا ہے کہ خداتعالیٰ بالکل عرش کے برابر ہے نہ اس سے چھوٹا ہے نہ بڑا‘ اور یہ بھی کہتا ہے کہ جہنم فنا ہو جائے گی‘ اور یہ بھی کہتا ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام معصوم نہیں ہیں‘ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا
کوئی مرتبہ نہیں ہے ان کو وسیلہ نہ بنایا جائے اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی زیارت کی نیت سے سفر کرنا گناہ ہے ایسے سفر میں نماز کی قصر جائز نہیں جو شخص ایسا کرے گا وہ حضور کی شفاعت سے محروم رہے گا۔
نعوذباللّٰہ من ھذہ الھفوات۔
انہیں عقائد کی بنیاد پر جب خاتم الفقہاء والمحدثین حضرت شہاب الدین ابن حجر ہیتمی مکی رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کیا گیا کہ ابن تیمیہ نے متاخرین صوفیہ پر اعتراض کیا ہے تو انہوں نے فرمایا:
ابن تیمیہ عبد خذلہ وضلہ واعماہ واصمہ واذلہ۔ وبذٰلک صرح الائمۃ الذین بینوا فسادا حوالہ وکذب اقوالہ ومن اراد ذٰلک فعلیہ بمطالعۃ کلام الامام المجتھد المتفق علی امامتہ وجلالتہ وبلوغ مرتبۃ الاجتھاد ابی الحسن السبکی وولد التاج والشیخ الامام العز بن جماعۃ واھل عصرھم وغیرھم من الشافیعۃ والمالکیۃ والحنفیۃ۔ ولم یقصرا عتراضہ علی متاخری الصوفیۃ بل اعتراض علی مثل عمر بن الخطاب وعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما۔ والحاصل ان لایقام للکلامہ وزن بل یرمی فی کل وعروحزن ویعتقد فیہ انہ مبتدع ضال ومضل جاھل غال۔ عاملہ اللّٰہ بعد لہ واجارنا من مثل طریقتہ وعقیدتہ وفعلہ آمین ا ھ۔
یعنی ابن تیمیہ ایسا شخص ہے کہ خداتعالیٰ نے اسے نامراد کر دیا اور گمراہ فرما دیا اور اس کی بصارت و سماعت کو سلب فرما لیا اور اس کو ذلت کے گڑھے میں گرا دیا اور ان باتوں کی تصریح ان اماموں نے فرمائی ہے جنہوں نے اس کے احوال کے فساد اور اس کے اقوال کے جھوٹ کاپول کھولا ہے۔ جو شخص ان باتوں کا تفصیلی علم حاصل کرنا چاہے اسے لازم ہے کہ وہ اس امام کے کلام کا مطالعہ کرے۔ جن کی امامت و جلالت پر سب علمائے کرام کا اتفاق ہے‘ اور جو مرتبہ اجتہاد پر فائز ہیں یعنی حضرت ابوالحسن سبکی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت تاج الدین سبکی کے فرزند اور حضرت شیخ امام عز الدین بن جماعہ اور ان کے ہمعصر شافعی، مالکی اور حنفی علماء کی کتابوں کو پڑھے اور ابن تیمیہ کے اعتراضات فقط متاخرین صوفیہ ہی پر نہیں بلکہ وہ تو اس قدر حد سے بڑھ گیا کہ امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب اور امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما جیسی مقدس ذاتوں کو بھی اپنے اعتراضات کا نشانہ بنا ڈالا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابن تیمیہ کی بکواسوں کا کوئی وزن نہیں بلکہ وہ اس قابل بھی نہیں کہ گدھوں اور کوؤں میں پھینک دی جائیں‘ اور ابن تیمیہ کے بارے میں یہی اعتقاد رکھا جائے کہ وہ بدعتی گمراہ‘ دوسروں کو گمراہ کرنے والا‘ جاہل اور حد سے تجاوز کرنے والا ہے۔ خداتعالیٰ اس سے انتقام لے اور ہم سب لوگوں کو اس کی راہ اور اس کے عقائد سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین
(فتاویٰ حدیثیہ)
اور عارف باللہ حضرت شیخ احمد صاوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
ابن تیمیہ ان الحنابلۃ وقد رد علیہ ائمۃ مذھبہ حق قال العلماء انہ الضال المضل ھ ا۔
یعنی ابن تیمیہ حنبلی کہلاتا تھا‘ حالانکہ اس مذہب کے اماموں نے بھی اس کا ردّ کیا ہے‘ یہاں تک کہ علماء نے فرمایا کہ وہ گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہے۔ (صاوی جلد اوّل ص ۹۶)
وھو تعالٰی اعلم بالصواب۔
کتبہ:
جلال الدین احمد الامجدی
۲؍ شعبان المعظم ۱۳۹۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۴۵/۴۴)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند