اذان و جماعت کے درمیان الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ پکارنا جائز ہے یا نہیں؟
صلاۃ پڑھنے والے موذن کو نکال دینا کیسا ہے
مسئلہ: از محمد صفی اللہ ابوالعلائی گدی۔ سی کولیری ضلع ہزاری باغ۔ بہار
اذان و جماعت کے درمیان الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ پکارنا جائز ہے یا نہیں؟ حوالہ کے ساتھ تحریر فرمائیں۔ ایک مؤذن نے صلاۃ پکاری تو لوگوں نے اسے نکال دیا تو کیا اس بات پر مؤذن کو نکالنے والے لوگ حق بجانب ہیں؟
الجواب: اذان وجماعت کے درمیان الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ پکارنا جائز و مستحسن ہے۔ اسے اصطلاح شرع میں تثویب کہتے ہیں اور تثویب کو فقہائے کرام نے نماز مغرب کے علاوہ باقی نمازوں کے لئے مستحسن قرار دیا ہے جیسا کہ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مصری ص ۵۳ میں ہے:
التثویب حسن عند المتاخرین فی کل صلاۃ الا فی المغرب ھٰکذا فی شرح النقایہ للشیخ ابی المکارم وھو رجوع المؤذن الی الاعلام بالصلاۃ بین الاذان والاقامۃ۔ وتثویب کل بلدما تعارفوہ اما بالتنحنح اوبالصلاۃ اوقامت قامت لانہ للمبالغۃ فی الاعلام وانما یحصل ذٰلک بما تعارفوہ کذا فی الکافی۔
یعنی نماز مغرب کے علاوہ ہر نماز میں علمائے متاخرین کے نزدیک تثویب مستحسن ہے ایسا ہی شیخ ابوالمکارم کی شرح النقایہ میں ہے‘ اور تثویب یہ ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان مؤذن نماز کا دوبارہ اعلان کرے‘ اور ہر شہر کی تثویب وہ ہے جو شہر والوں میں متعارف ہو کھنکھارنا یا صلاۃ صلاۃ پکارنا یا قامت قامت کہنا۔ اس لئے کہ تثویب اعلان نماز میں مبالغہ کے لئے ہے‘ اور وہ اسی چیز سے حاصل ہو گا جو لوگوں میں متعارف ہو ایسا ہی کافی میں ہے‘ اور حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ جلد اوّل ص ۴۱۸ میں تحریر فرماتے ہیں: واستحسن المتاخرون التثویب فی الصلوات کلھا۔ یعنی ہر نماز کے لئے تثویب کو متاخرین علماء نے مستحسن قرار دیا ہے‘ اور مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے:
ویثوب بعد الاذان فی جمیع الاوقات لظھور التوانی فی الامور الدینیۃ فی الاصح وتثویب کل بلد بحسب ما تعارف اھلھا۔
یعنی صحیح مذہب یہ ہے کہ اذان کے بعد ہر وقت میں تثویب کہی جائے اس لئے کہ دینی کاموں میں لوگوں کی سستی ظاہر ہے‘ اور ہر شہر کی تثویب شہر والوں کے عرف کے لحاظ سے ہے۔ فقہائے کرام کی ان تصریحات سے واضح ہو گیا کہ اذان و جماعت کے درمیان مؤذن کا نماز کے لئے دوبارہ اعلان کرنا جائز و مستحسن ہے‘ اور ہر شہر میں ان کلمات کے ساتھ پکارا جائے جن سے شہر والے سمجھ لیں کہ یہ نماز کا دوبارہ اعلان ہے‘ اور آج کل عام شہروں میں الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ اور اسی طرح کے دوسرے کلمات سے لوگ نماز کا دوبارہ اعلان سمجھتے ہیں۔ لہٰذا ایسے کلمات کا اذان و جماعت کے درمیان پکارنا جائز و مستحسن ہے جو آٹھویں صدی ہجری کی بہترین ایجاد ہے جیساکہ درمختار مع ردالمحتار جلد اوّل ص ۲۷۳ میں ہے:
التسلیم بعد الاذان حدث فی ربیع الاخرسنۃ سبع مائۃ واحدی وثمانین وھو بدعۃ حسنۃ اھ تلخیصًا۔
یعنی اذان کے بعد الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللہ پڑھنا ماہ ربیع الآخر ۷۸۱ہجری میں جاری ہوا اور یہ بدعت حسنہ ہے‘ اور بدعت حسنہ کی مخالفت کرنے والے گمراہ نہیں تو جاہل اور جاہل نہیں تو گمراہ ضرور ہیں کہ قرآن کریم کے تیس پارہے بنانا، ان میں رکوع قائم کرنا، اس پر اعراب یعنی زبر زیر وغیرہ لگانا، حدیث شریف کو کتابی شکل میں جمع کرنا، قرآن و حدیث سمجھنے کے لئے علم نحو وصرف سیکھنا اور فقہ وعلم کلام کی تدوین یہ سب بدعت حسنہ ہیں جن کی مخالفت جاہل یا گمراہ کے سوا کوئی تیسرا نہیں کر سکتا۔ لہٰذا صلاۃ پکارنے کے سبب موذن کو نکالنے والے ظالم و جفاکار اور حق العبد میں گرفتار ہیں۔ وھو تعالٰی اعلم بالصواب۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۲؍ ربیع الاول ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۸۹/۱۸۸)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند