اہلسنت میں سارے جھگڑے شخصیت پرستی کی بنیاد پر ہیں
ازقلم :
محمد طاہرالقادری کلیم فیضی بستوی _*
سربراہ اعلیٰ مدرسہ انوار الاسلام قصبہ سکندرپور ضلع بستی یوپی۔
١/جمادی الاول ١٤٤٥بروز ہفتہ
___________
آج کل لوگوں کا جو مزاج بن گیا ہے-!*_(بلکہ بنادیا گیا ہے) کہ اپنا ہی _*”پیر ، پیر ہے* اب وہ چاہے جیسا ہو مگر ہے سب سے بلند وبالا مرتبے والا اور مریدوں کی نظر میں
و ہی سب کچھ ہے_,
وہی عارف باللہ ہے -وہی قطب ہے -وہی مشکل کشا ہے -اور وہی غوثِ زماں ہے -اوردوسرا کچھ بھی نہیں __,
جبکہ صحیح تو یہ ہے کہ اپنے بھی پیر کو دل سے ماننا تبھی ہوگا جب دوسرے سلسلے کے بزرگوں اور “پیروں کو بھی عزت دی جائے اور دوسرے” پیر کی برائی کرنے سے اجتناب کیا جائے _, ہاں اگربظاہر کوئی شرعی خرابی ہے تو کوئی بات نہیں عزت کرو یا نہ کرو ،،،
_____________________”اپنا” پیر و مرشد چاہے لائق ہو یا نہ ہو لیکن اس کو خیالی طور پر _*”حضرت بایزید بسطامی،”حضرت جنیدبغدادی ،”حضرت ابوالحسن خرقانی ،”چضرت زکریا ملتانی “حضرت معروف کرخی ،” حضرت سری سقطی”حضرت بابافریدالدین گنج شکر،”حضرت صابرکلیری ، “حضرت قطب الدین بختیار کاکی”حضرت نظام الدین اولیاء*_ علیہم الرحمہ سے کم نہیں مانتے اور عروج و ارتقاء کی سب سے اونچی سطح پر بیٹھا دینے کے لئے کمر بستہ رہتے ہیں ،
____________________”فقیر راقم الحروف کچھ بھی ہو مگر” ان شاءاللہ تبارک و تعالیٰ حق گوئی و حقیقت بیانی کرنے سے نہیں رک سکتا ،،
کیونکہ راقم انہیں مدوں پر گفتگو کرتا ہے جن پر” ملت اسلامیہ کے اندر خرابی دیکھتا اور محسوس کرتا ہے ،_______________
موجودہ زمانے میں یہ کھلی آنکھوں سے دیکھا جارہا ہے کہ “بعض بڑی خانقاہوں میں بھی فی زمانہ _*گدی نشینان*_ بمثل کاٹھ کے الو بیٹھے ہوئے ہیں ، ان کے پاس نہ علم ہے نہ ادب نہ فضل و کمال ہے اور نہ ہی مولوی و مولانا ہیں لیکن اپنے بزرگوں کی گدی پر پوری تمکنت اور شان وشوکت اور کروفر کے ساتھ قبضہ جمائےہوئے براجمان ہیں ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان کی عظمت و بلندیء درجات کا کچھ کرائے کے ٹٹو فضول کا ڈنھڈھورا پیٹنے میں لگے ہوئے ہیں ،اوران کو _*”آسمان ولایت و کرامت کا مہ کامل کہتے ہیں* _
“جب بے علم کے” عابد و زاہد کو بزرگوں نے” شیطان کا مسخرہ کہا ہے تو پھر بے علم و فضل اور بے عمل پیر کیسا ہوگا _؟
یہ قارئین و ناظرین خود فیصلہ کریں _!
آج کے دور میں ہر چیز کو بالکل کھلواڑ سمجھ لیا گیا ہے ،
اور شخصیت پرستی تو اس قدر ہے کہ
_*”مت پوچھئے*:
پہلے کے” پیران عظام” جامع علوم و معارف اور شعور و آگہی کا پیکر ہوتے تھے اور وہ اتنے سادہ اور بے نفس ہوتے تھے کہ جلدی کسی کو مرید بھی نہیں کرتے تھے اگر کوئی ان سے مرید ہونا چاہتا تھا تو وہ کسی دوسرے پیر بزرگ کی جانب رہنمائی کردیتے اور کہتے تھےکہ فلاں سے مرید ہوجاؤ وہ بڑے اچھے اور نیک شخص ہیں ،
_*”مگر آج کل کے دنیا دار پیر” صاحبان یہ مزاج اور حوصلہ رکھتے ہیں* کہ ساری دنیا مجھ سے ہی مرید ہوجائے اور میری ہی تعریف وتوصیف میں رطب اللسان رہے ،
اور سب کے نذرانے میری ہی جھولی میں آئیں اور میں خوب ٹھاٹھ باٹھ سے رہوں اور میری زندگی عیش و عشرت میں گزرے _*”بڑے بڑے شہروں* میں میری کوٹھی وبنگلے ہوں اور قیمتی گاڑیاں ہوں تاکہ مریدین میں خوب شاہانہ کروفر سے جاؤں مریدین میری دست بوسی و پا بوسی کریں اور میرے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہیں ،
آرام کے لئے نرم و گداز بستر رہے اور مختلف قسم کے خوش ذائقہ پکوان اور کھانا کھلائیں،
اور اچھے سے خدمت کریں ،!
____________
بہرحال ،، فقیر کو اس بات کا یقین ہے کہ اگر آج بھی”پیر صاحبان چاہ لیں تو معاشرہ وماحول خوشگوار اور درست ہوسکتے ہیں” _*”سنی عوام پیران خانقاہ* میں آپسی نزاع اور تناؤ دیکھ کر تذبذب کا شکار ہو جاتی ہے اور
سوچتی ہے کہ کس کو صحیح مانیں اور کس کو غلط _!
اس لئے ہمیں کسی ایک پیر کا ہی جھنڈا زیادہ نہیں لہرانا چاہئے بلکہ ہر اس پیر کا احترام وادب کرنا چاہئے جو صاحب سلسلہ اور صحیح معنوں میں پیر ہو،
اور _*”جو پیر اکابرین اہل سنت* کا مظہر اور صاحب تقویٰ و طہارت , پیکر زہد و ورع, منکسر المزاج, پاکیزہ طبیعت ،قدسی صفت نیک و پرہیزگار اخلاق مند ہو اسی کو لائق کریں،،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
————————————————————