۱۲ ربیع الاول یوم وفات ہے تو عید میلادالنبی کیوں؟ مسئله از: محمد احمد علی ، مقام کھڑکھوڑی، مہراج گنج ، یوپی
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید اس بات کا قائل ہے کہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ و سلم منانا درست نہیں ہے اور خالد اس بات پر مصر ہے کہ عید میلادالنبی منانا بموقع تاریخ ولادت رسول صلی اللہ تعلی علیہ سلم مستحسن اور باعث خیر و برکت ہے و زید کی دلیل ہے کہ اس تاریخ میں نبی صل اللہ تعالی علیہ وسلم کی ولادت کے ساتھ ہی وفات بھی ہوئی اور وفات پر خوشی نہیں منائی جاتی بلکہ وہ غم و اندوہ کا موقع ہوتا ہے لہذا عید میلادالنبی منانا درست نہیں۔ تو اب حضور والا سے عرض یہ ہے کہ آپ اس مسئلہ پر حکم شرعی سنائیں، نیز شافی و کافی دلیل دیں اور زید کی دلیل کا رد بھی بالدلیل فرمائیں تاکہ زید کی سرکوبی ہو۔
باسمه تعالى و تقدس
الجواب بعون الملک الوهاب:
محسن کائنات باعث تخلیق عالم سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تاریخ ولادت مقدسہ کے موقع پر عید میلادالنبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم منانا محفل میلاد منعقد کرنا، فرحت و سرور کا اظہار کرنا بلاشبہ جائز ودرست بلکہ باعث خیر و برکت اور وجہ اضافہ نعمت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ ﴾
یعنی تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت سے اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔
(سورة یونس، آیت: ۸۵)
اور امام اجل سیدی ” جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
“عندى ان اصل عمل المولد هوا جتماع الناس وقرأة ما يتيسر من القرآن ورواية الاخبار الواردة فى مبدأ امر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم (الى (قوله) هو من البدع الحسنة التي يشاب عليها صاحبها لما فيه من تعظيم قدر النبي صلى الله تعالى عليه وسلم واظهار الفرح والاستبشار بمولده الشريف
(الحاوی للفتاوى ،ج:۱، ص: ۱۸۳۰۱۸۱)
اسی طرح شارح بخاری علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ نے المواہب الدنیہ ج ۱ ص ۲۷ پر، امام ابن حجر مکی نے فتاوی حدیثیہ ص ۱۲۹ پر علامہ ملاعلی قاری علیہ الرحمۃ نے المورد الروی میں محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے ماثبت بالسنۃ ص ۱۰۲ میں، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی تصنیف فیوض الحرمين ص:۸۱/۸۰ میں میلادالنبی منانے کو باعث خیر و برکت اور رضائے مولی حاصل کرنے کا طریقہ و ذریعہ تحریر فرمایا ہے۔ بلکہ مولوی اشرف علی تھانوی کے پیرو مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی علیہ الرحمہ اپنا معمول ہوں بیان کرتے ہیں : فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل مولود شریف میں شریک ہوتا ہوں بلکہ برکات کا ذریعہ سمجھ کر ہر سال منعقد کرتا ہوں ، اور قیام میں لطف ولذت پاتا ہوں
(فیصله هفت مسئله، ص ۹)
ان حضرات کے علاوہ شرق و غرب کے بے شمار جلیل القدر علماے کرام نے اس موضوع پر کتابیں لکھ کر میلاد پاک کے جواز و استحباب اور باعث برکات وخیرات ہونے کو روشن دلیلوں سے مزین فرما کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ بلا شبہ محفل میلاد پاک منعقد کرنا اور خوشی و مسرت کا اظہار کرنا جائز و بہتر مستحسن و مستحب ہے۔
زید مزید تفصیل کے لیے علماء اہل سنت کی کتابیں پڑھے مسئلہ مثل آفتاب واضح ہو جائے گا۔
زید کا یہ خیال که ۱۲ ربیع الاول حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی وفات کا دن ہے لہذا اس دن خوشی کے بجائے رنج وغم کا اظہار ہونا چاہئے تو یہ زید کی جہالت اور احکام شرعیہ سے نا واقفی کی دلیل ہے، کیوں کہ اولا تو رنج و غم اور ماتم کرنا ہی ممنوع ہے۔ ثانیا غم اور ماتم کسی نعمت کے ختم ہو جانے اور اس نعمت کے فیوض و برکات کا سلسلہ بند ہو جانے پر ہوتا ہے، اور ہمارے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ پاک کی وہ عظیم نعمت ہیں جن کے فیوض و برکات سے کائنات کا ذرہ ذرہ آج بھی مستفیض ہورہا ہے اور آئندہ بھی ہوتارہے گا پھر غم کس پر ۔
علامہ جلال الدین سیوطی علیہ الرحمۃ والرضوان رقمطراز ہیں:
قدامر الشرع بالعقيقة عند الولادة وهى اظهار شکر و فرح بالمولود ولم یامر عند الموت بذبح ولا بغيره بل نهى عن النياحة واظهار الجزع، فدلت قواعد الشريعة على انه يحسن فى هذا الشهر اظهار الفرح بولادته صلى الله تعالى عليه وسلم دون اظهار الحزن فيه لوفاته “
(الحاوي للفباوى، ج ۱، ص: ۱۹۳)
والله تعالى اعلم بالصواب واليه المرجع والمآب
الجواب صحیح:
محمد قمر عالم قادری
محمد نظام الدین القادری ، المجيب مصیب محمد تفسیر القادری
كتبه :
محمد اختر حسین قادری خادم افتاو درس دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی بستی
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند