بالغ لڑکیوں کا کالجوں مدرسوں اسکلوں اور مکاتب اسلامیہ میں مائک پر دعا و سلام پڑھنا کیسا ہے؟
BALIG LADKIYON KA CALLEJON MADARSON SCHOOLON AUR MAKAATIB MEN LOUDSPEAKER PAR DUWAA W SALLAM PADHNA KAISA HAI?
बालिग लडकियो का कॉलेजों मदरसों स्चूलों और मकातिब में लाउडस्पीकर पर दुवा व सलाम पढ़ना कैसा है?
کیا فرماتے ہیں مفتیان اہلسنت ہمدرد قوم و ملت مسلہ ذیل میں
آج کل عموما کالجوں مدرسوں اور مکاتب اسلامیہ میں اکثر و بیشتر دعا کا رواج ہے جس کو بالغ لڑکیاں لائوڈ اسپیکر پر پڑھتی ہیں اور اس دعا کو مدرسہ و اسکول کا اسٹاپ سنتا ہے اور دیگر افراد کے کانوں میں بھی یہ آواز گشت کرتی ہے کیا اس طرح سے لڑکیوں کا مائک میں دعا پڑھنا اور مدرسہ کے ذمہ داران کا یہ دعا پڑھوانا عند الشرع جائزہے ۔
ان باتوں کا جواب شرع کی روشنی میں عطا فرماکر احسان فرمائیں ۔
المستفتی ۔محمد تسنیم رضا رضوی
متعلم مدرسہ قمر العلوم اسلامیہ ککرالہ ضلع بدایوں یوپی الہند
الجواب
اگر واقعی میں یہی صورت جو مذکورہ بالا مسئلے میں بیان کی گئی ہے تو بالغ لڑکیوں کا کالجوں مدرسوں اسکلوں اور مکاتب اسلامیہ میں مائک پر دعا و سلام پڑھنا ناجائز و حرام اور گناہ اور باعث فتنہ ہے کیونکہ عورت کی آواز بھی عورت ہے اسی وجہ سے انھیں اذان دینا جائز نہیں۔
جیسا کہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے کہ
” أما النساء فيكره لهن الأذان و كذا الإقامة ” اھ
( رد المحتار علی الدر المختار ج 2 ص 48 : کتاب الصلاۃ ، باب الأذان )
اور اسی میں ہے کہ ” نغمة المرأة عورة ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها ” اھ
( در مختار مع رد المحتار ج 2 ص 78 ) اور اسی میں ہے کہ
” أن صوت المرأة عورةعلى الراجح ” اھ
(در مختار مع رد المحتار ج 9 ص 531 : کتاب الحظر و الاباحۃ )
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ”
نا جائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے اور عورت کی خوش الحانی کہ اجنبی سنے محل فتنہ ہے ” اھ
(فتاوی رضویہ ج 22 ص 240 : رضا فاؤنڈیشن لاهور )
اور دوسرے مقام پر تحریر فرماتے ہیں کہ
” عورت کا خوش الحانی سے بآواز ایسا پڑھنا کہ نامحرموں کو اس کے نغمہ کی آواز جائے ، حرام ہے نوازل امام فقیہ ابو اللیث میں ہے : نغمة المرأۃ عورۃ ” اھ یعنی عورت کا خوش آواز کر کے کچھ پڑھنا عورت یعنی محلِ ستر ہے ، کافی امام ابو البرکات نسفی میں ہے کہ ” لا تلبی جھراً لان صوتھا عورۃ ” اھ یعنی عورت بلند آواز سے تلبیہ نہ پڑھے اس لیے کہ اس کی آواز قابل ستر ہے ” اھ
( فتاوی رضویہ ج 22 ص 242 : رضا فاؤنڈیشن لاهور )
صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
جدید تعلیم یافتہ عورتیں مردوں سے بے تکلف کلام کرتی ہیں بلند آواز سے بولتی ہیں۔ مجمعوں میں تقریر کرتی ہیں‘ شعر گاتی ہیں۔ انہیں خبر نہیں کہ عورتوں کو مردوں سے بلند آواز کے ساتھ کلام کرنا جائز نہیں۔ شریعت میں عورت کی آواز یہاں تک محفوظ رکھی گئی کہ اذان دینا بھی جائز نہیں۔
(فتاوی صدر الافاضل،ص:۳۲۹)
عمدۃ المحققین سلطان المناظرین حضرت علامہ مولانا مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی اشرفی رحمۃ اللہ تبارک و تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
عورتوں کا اپنی آواز کو بلند کرنا مکروہ تحریمی و ممنوع ہے۔ لہٰذا عورتیں گھروں میں میلاد شریف کی نظمیں یا نثر ہرگز ہرگز اتنی بلند آواز سے نہ پڑھیں کہ ان کی آوازیں سنکر باہر کے غیر محارم محظوظ ہوں۔ بلکہ اتنی پست آواز سے پڑھیں کہ گھروں سے آواز باہر نہ جائے ۔
(حبیب الفتاوی،ج:۴،ص:۱۲۹)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ بالغ لڑکیوں کا بلند آواز سے دعا و سلام پڑھنا اور پڑھوانا ناجائز و حرام اور گناہ ہے اور جن حضرات نے اس طریقے کو رائج کیا وہ سب کے سب گناہ گار ہوئے ان پر ضروری ہےکہ وہ اپنے اس فعل سے توبہ و استغفار کریں اور آئندہ ایسی حرکت کرنے نہ کرنے کا پختہ عہد کریں البتہ معلم کا بغرض اصلاح ان کی آواز سن سکتا ہے
فتاوی شامی میں ہے:
“فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولانجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة.”
(کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ 1 /406 ط: سعید)
اور بحر العلوم حضرت العلام مولانا مفتی عبد المنان اعمظی علیہ الرحمتہ تحریر فرماتے ہیں کہ ” بیشک عورت کی آواز عورت ہے مگر ضرورة اجنبی مرد کی آواز سن بھی سکتی ہے اور اسکو اپنی آواز سنا بھی سکتی ہے ” اھ
( فتاوی بحر العلوم ج 1 ص 386 )
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند 8390418344