بدلتے حالات کا مزاج افسوس ناک دور
(کچھ بکھرے ہوئے نقوش)
___________________
ایک دو زخم نہیں سارا بدن چھلنی ہے
درد بیچارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھیں
———————-
” تکمیل علامات قیامت کادور،
“عالم ہستی کا دور آخر،
“پندرھویں صدی،
“محبت کا فقدان ،
نفرت وبیزاری کا دور دورہ،
” برائیاں اب فیش بن چکی ہیں
عوام علماء کرام کی بد گو،
” ارکان اسلام سے زیادہ عرس اور جلسوں پرسنی بھائیوں کا زور،
“پیری مریدی کو جیسے فرض واجب کے خانے میں رکھ دیا گیا ہے،
“ماں باپ کی ناراضگی کا احساس بھی دم توڑ چکا ہے،
“بھائی بھائی کا دشمن۔۔۔۔۔۔۔۔
خانقاہ ،خانقاہ میں نزاع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“علم اٹھتا جارہا ہے,
جہالت کی تاریکی بڑھ رہی ہے،
“شخصیت پرستی عروج پر ہے
“جاہلوں کی درندوں جیسی زندگی،
“نئی نسل اپنے علماء اور بڑوں کو سلام کرنے سے منھ چھپاتی ہے ،
“لڑکیاں نیم عریاں اور بغیرتی کا خوگرہوچکی ہیں ،
“پوری دنیا میں جنگ وجدال اور لڑائی جھگڑے,
“شریفوں کا آرم سے رہنا دوبھر,
“عجیب دور اور عجیب ماحول ہے اس وقت کائنات عالم میں
“مساجد خوبصورت سے خوبصورت مگر نمازی
چند گنے چنے غریب و کمزور انسان,
“علماء کا نصیحت کرنا غیروں کواور خود ان کے گھر کا حال برا اور بدتر ,
“باطل مذاہب کا نشانہ مذہب اسلام ہے ،
“مسلم بچے شراب خوری میں مست ومنگن،
“بندگان خداکےاندرخوف خدا اور شرم نبی کچھ بھی نہیں،
،حصول مال و دولت ا ور دنیا داری میں
“اچھے اچھوں کے گھر کا ماحول پراگندہ،
مسلم بچیاں کفار ومشرکین کی آغوش میں بلا تردد جارہی ہیں،
“لوگ جاہ و حشمت کے حصول میں کوشاں وسرگرداں مگر آخرت کا خیال نہیں،
===================
__*”محمد طاہرالقادری کلیم فیضی بستوی _*،سربراہ اعلیٰ مدرسہ انوار الاسلام قصبہ سکندر پور ضلع بستی یوپی