تسکین شہوت کےلئے سیکسی ڈول (SEXY DOLL) سیکسی ٹوئز (SEXY TUYS) پلاسٹک فرج (PLASTIC AURAT KI SHARAM GAH) وغیرہ کا استعمال کرنا کیسا ہے؟ TASKEENE SHAHWAT KELIYE SEXY DOLL SEXY TUYS AUR PLASTIC AURAT KI SHARAM GAH WAGAIRAH KA ISTEMAAL KARNA KAISAA HAI? तस्कीने शहवत केलिए सेक्सी डॉल सेक्सी टॉयज़ और प्लास्टिक औरत की शरम गाह का इस्तेमाल करना कैसा है।

 تسکین شہوت کےلئے سیکسی ڈول (SEXY DOLL) سیکسی ٹوئز (SEXY TUYS) پلاسٹک فرج (PLASTIC AURAT KI SHARAM GAH) وغیرہ کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

TASKEENE SHAHWAT KELIYE SEXY DOLL SEXY TUYS AUR PLASTIC AURAT KI SHARAM GAH WAGAIRAH KA ISTEMAAL KARNA KAISAA HAI?

तस्कीने शहवत केलिए सेक्सी डॉल सेक्सी टॉयज़ और प्लास्टिक औरत की शरम गाह का इस्तेमाल करना कैसा है।
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلے ھذا میں کہ:
آجکل نوجوان طبقہ میں ایک نئی عادت قبیحہ پائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ تسکین شہوت کےلئے سیکسی ڈول (SEXY DOLL) سیکسی ٹوئز (SEXY TUYS) پلاسٹک فرج (PLASTIC AURAT KI SHARAM GAH)کا استعمال کر رہےہیں جو کہ یورپی تہذیب کے اثرات سے وجود میں آئے ہوئے ہیں یہ تمام تسکین شہوت کے آلہ جات ایک یورپی کمپنی کے پروڈکٹ ہیں جس میں سیکسی ڈول(SEXY DOLL)یعنی مصنوعی لڑکی جو جسامت اور قد قامت اور تمام حرکات و سکنات میں مثل انسان اور مثل جسم انسانی ہے اور پلاسٹک فرج جو شکل و صورت میں مثل فرج کی طرح دکھائی دیتا ہے جو استعمال کے وقت وائبریٹر (تھرتھرانا) کی طرح کرتا ہے کیا ان سب کا تسکین شہوت کےلئے استعمال کرنا کیسا ہے
نیز یہ بھی بتائیں کہ نکاح نہ ہونے کی صورت میں تسکین شہوت کےلئے کونسا عمل جائز ہے؟
ان تمام سوالات کے جوابات قرآن و احادیث کی روشنی میں مدلل و مفصل عنایت فرمائیں کرم نوازش ہو گی۔
(سائل:محمد افتخار احمد عطاری کراچی پاکستان)
الجواب بعون الملک الوھاب
ان تمام سیکسی ڈول (SEXY DOLL) سیکسی ٹوئز (SEXY TUYS) پلاسٹک فرج (PLASTIC AURAT KI SHARAM GAH) کا استعمال جنسی خواہش کی تسکین کےلئے کرنا از روئے شرع ناجائز و حرام اور گناہ ہے نیز یہ عمل  شرعًا، اخلاقًا اور  عقلًا  ہر لحاظ سے انتہائی قبیح عمل ہے کیونکہ شریعت مطہرہ نے جنسی خواہش کی تسکین کے لیے  عفت والا راستہ نکاح کو متعین کیاہے ، اس حلال راستہ کے علاوہ کسی بھی دوسرے طریقہ سے اپنی خواہش پوری کرنا شرعی حدود سے تجاوز کرنا ہے جو کہ ناجائز و حرام ہے ۔ اس کی حرمت قرآنِ  کریم سے ثابت ہے۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
“{وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ}”
یعنی:اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔
(پ:۱۸،سورۃ المؤمنون،آیت:۷،۶،۵)
اس آیت کی تفسیر میں تفسیر نعیمی میں اس طرح مرقوم ہے:
خاوند بیوی اور مولی لونڈی کی باہمی صحبت و وطی کے علاوہ شریعت اسلام میں کوئی وطی و مجامعت جائز و حلال نہیں ہے۔ لہذا شیعوں کا متعہ اور عورت یا مرد سے دبر میں لواطت، جانوروں سے قبل یا دبر میں مجامعت یا مشت زنی قطعا حرام ہے۔ ائمہ ثلاثہ کا یہ متفقہ مسئلہ ہے۔ امام احمد حنبل نزدیک سخت ترین تین قسم کی مجبوریوں میں مشت زنی کو مجبوراً جائز رکھا گیا ہے۔ امام احمد مشت زنی کو بلا مجبوری مکروہ تحریمی فرماتے ہیں۔ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ عَطَاءٍ قَالَ مَكْرُوہ یعنی ابن جریج نے حضرت عطا سے روایت کیا کہ مشت زنی مکروہ ہے۔ امام احمد اپنی مسند میں اسی روایت کو دلیل بناتے ہیں۔ مگر ائمہ ثلاثہ کے نزدیک یہ مسئلہ فَمَنِ ابْتغی وَرَاءَ ذلك (الج) سے مستنبط ہوا۔
(تفسیر نعیمی،ج:۱۸،ص:۳۹)
اور حدیث پاک میں ہے
” ناکح الید ملعون “
ترجمہ: جلق لگانے والے پر اللہ کی لعنت ہے
*(الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ، حرف النون ، رقم الحدیث: ۵۶۹ ، ص۳۶۰ ، مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت ، الطبعۃالثانیۃ:۱۴۰۶ھ)*
فتاوی شامی میں ہے:
فلو ادخل ذكره فى حائط او نحو حتی امنی او استمنی بكفه بحائل يمنع الحرارة ياثم ايضا ويدل ايضا على ما قلنافى الزيلعي حيث يستدل على عدم حله بالكف بقوله تعالى والذين هم لفروجهم حافظون الآية وقال فلم يبح الاستمتاع الابهما اى بالزوجة والامة فافاد عدم حل الاستمتاع اى قضاء الشهوة بغيرهما.
[كتاب الصوم، مطلب في حكم الاستمناء بالكف، ۳۷۱/۳]
اگر مرد نے اپنے ذکر کو دیوار یا اس کے مثل کسی چیز میں داخل کیا یہاں تک کہ منی نکل آئی یا حرارت کو روکنے والی کسی چیز کے ہوتے ہوئے ہاتھ سے منی نکالی تو وہ گنہ گار ہو گا زیلعی میں ہاتھ سے منی نکالنے کے جائز نہ ہونے پر قرآن کی آیت:
والذين هم لفروجهم حافظون اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ بیوی اور باندی کے سوا کسی سے استمتاع جائز نہیں ہے تو اس بحث نے استمتاع یعنی بیوی اور باندی کے سوا شہوت پوری کرنے کے حلال نہ ہونے کا نفع دیا۔
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ ان تمام مذکورہ بالا مصنوعی آلات مجموعہ منکرات و مفسدات ہیں شہوت کو برانگیختہ کرنے اور لذت اندوزی کے آلہ ہیں اور جہاں تک شہوت کو حاصل کرنے اور لذت کی تحصیل کا معاملہ ہے ہرگز ہرگز سوائے بیوی اور باندی کے کسی بھی چیز سے شہوت اور لذت حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ ایسا کرنے والا گناہ گار ہوگا لہذا ان تمام سیکسی ڈول (SEXY DOLL) سیکسی ٹوئز (SEXY TUYS) پلاسٹک فرج (PLASTIC AURAT KI SHARAM GAH) کا استعمال جنسی خواہش کی تسکین کےلئے کرنا از روئے شرع ناجائز و حرام اور گناہ ہے۔
اور رہی بات نکاح نہ ہونے کی صورت میں تسکین شہوت کےلئے کونسے عمل کی اجازت ہے؟
شہوت کا اس حد تک معاملہ ہو کہ زنا یا کسی اور امر حرام کے ارتکاب کی نوبت آجانے کا قوی اندیشہ ہو تو مشت زنی کی اجازت دی گئی ہے
البتہ علماء کرام نے اس کی اجازت تین شرائط کے ساتھ دی ہے اور فرمایا کہ امید ہے کہ مواخذہ نہ ہوگا۔ اگر تینوں میں سے ایک شرط بھی مفقود ہوتو حرام ہے کہ اذا فات الشرط فات المشروط
پہلی شرط یہ ہے کہ بیوی نہ رکھتا ہو اور ناہی نکاح کرنے کی قدرت ہو ، دوسری یہ کہ شہوت کا غلبہ ایسا ہوکہ زنا میں پڑ جانے کا ظن غالب ہو اور تیسری شرط یہ ہے کہ تسکین شہوت مقصود ہو نہ کہ حصول لذت
چنانچہ علامہ محمد بن پیرعلی آفندی برکلی حنفی اور علامہ عبدالغنی نابلسی حنفی فرماتے ہیں:
يجوز(عند) وجود (شروط ثلاثة )الاول ( ان يكون ) فاعل ذلك (عزبا) اى ليس له زوجة ولاامة ولابد ان يكون لا قدرة له على التزوج اوالتسري فان الشيطان يتلاعب بخواطره الشهوانية ، و) الشرط الثاني ان يكون فاعل ذلك ( بشبق) یقال شبق الرجل شبقا فهوشبق من باب تعب هاجت بشهوة النكاح وامر أنشبقة وربما وصف غير الانسان به كذافى المصباح(وفرط ) ای کثرة(شهوة)ای افراغ النطفة بحيث لولم يفعل ذلك لحملته شدة الشهوة على الزنا واللواط ، والشرط الثالث (ان یرید بہ )اي بذلك الفعل(تسكين الشهوة ) الثائرة عليه مخافة الوقوع في الحرام (لا ) یريدبذلك ( قضاءها )اى الشهوة ومجرد وجود ! اللذة بذلك “*
یعنی، تین شرطیں پائی جائیں تو جائز ہے ، اول یہ کہ فاعل نہ بیوی والا ہو نہ مملوکہ باندی والا ، نیز یہ بھی ضروری ہے کہ شادی ونکاح پر قدرت نہ رکھتا ہو ، کیونکہ شیطان خواطر شہوانیہ کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے ، دوسری شرط یہ ہے کہ ایسا کرنے والا فرط شہوت سے تنگ آگیا ہو بایں طور کہ نہ کیا تو شدت شہوت سے زنا یا لواطت میں پڑ جائےگا ، اور تیسری شرط یہ ہے کہ صرف لذت مقصود نہ ہو بلکہ ایسی شہوت کی تسکین مقصود ہو جو حرام تک لے جانے والی ہے ، اگر واقعی صورت حال ایسی ہو تو امید ہے کہ مواخذہ نہ ہوگا
(الحدیقۃالندیۃ ۲/۴۹۱ ، المکتبۃالنوریۃ الرضویۃ ، لائلپور)*
طریقہ محمدیہ میں ہے:
اما الاستمناء فحرام الا عند شروط ثلثۃ ان یکون عزب وبہ شبق وفرط شہوۃ(بحیث لو لم یفعل ذٰلك لحملتہ شدۃ الشہوۃ علی الزناء اواللواط والشرط الثالث ان یرید بہ تکسین الشہوۃ لاقضائھا اھ مزیدا من شرحھا الحدیقۃ الندیۃ۔
یعنی:مشت زنی حرام ہے مگر تین شرائط کے ساتھ جواز کی گنجائش ہے: (۱)مجرد ہو اور غلبہ شہوت ہو(۲)شہوت اس قدر غالب ہو کہ بدکاری زناء یا لونڈے بازی وغیرہ کا اندیشہ ہو(۳)تیسری شرط یہ ہے کہ اس سے محض تکسین شہوت مقصود ہو نہ کہ حصول لذت۔ طریقہ محمدیہ کی عبارت مکمل ہوگئی جس میں اس کی شرح حدیقہ ندیہ سے کچھ اضافہ بھی شامل ہے۔(ت)
(الطریقہ محمدیہ الصنف السابع من الاصناف التسعۃ الاستمناء بالید مکتبہ حنفِیہ کوئٹہ ۲/ ۲۵۵،الحدیقہ الندیہ الصنف السابع من الاصناف التسعۃ الاستمناء بالید مکتبہ حنفِیہ کوئٹہ ۲/ ۴۹۱)
چنانچہ امام فخرالدین زیلعی حنفی متوفی۷۴۳ھ فرماتے ہیں
وان قصد بہ تسکین مابہ من الشھوۃ یرجی ان لایکون علیہ وبال “*
(تبیین الحقائق ، کتاب الصوم ، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ ، ۱/۳۲۳، مکتبہ امدادیہ ملتان)*
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ سے جلق لگانے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے جوابا ارشاد فرمایا کہ
یہ فعل ناپاك حرام و ناجائز ہے ﷲ جل وعلا نے اس حاجت کے پورا کرنے کو صرف زوجہ و کنیز شرعی بتائی ہیں چند سطر بعد تحریر فرماتے ہیں کہ
ہاں اگر کوئی شخص جوان تیز خواہش ہو کہ نہ زوجہ رکھتا ہو نہ شرعی کی اور جوش شہوت سخت مجبور کرے اور اس وقت کسی کام میں مشغول ہو جانے یا مردوں کے پاس جابیٹھنے سے بھی دل نہ بنے غرض کسی طرح وہ جوش کم نہ ہو یہاں تک کہ یقین یا ظن غالب ہو جاۓ کہ اس وقت اگر یہ فعل نہیں کرتا تو حرام میں گر فتار ہو جاۓ گا تو ایسی حالت میں زنا و لواطت سے بچنے کے لئے صرف بغرض تسکین شہوت نہ کہ بقصد تحصیل لذت و قضاۓ شہوت اگر یہ فعل واقع ہو تو امید کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی مواخذہ نہ فرماۓ گا۔ پھر اس کے ساتھ ہی واجب ہے کہ اگر قدرت رکھتا ہو فورا نکاح یا خریداری کنیر شرعی کی فکر کرے ورنہ سخت گنہگار و مستحق لعنت ہوگا۔ یہ اجازت اس لئے نہ تھی کہ اس فعل نا پاک کی عادت ڈال لے اور بجاۓ طریقہ پسند ید و خد اور سول اسی پر قناعت کرے “
(فتاوی رضویہ ، کتاب الحظر والاباحۃ ، النظر والمس ،رقم المسئلۃ:۸۵ ، ۲۲/۲۰۲، رضافاؤنڈیشن لاہور)
اگر غلبہ شہوت کی یہ حالت ہو کہ مشت زنی سے بھی پوری نہ ہو اور دوسری طرف نگاہ جائے تو ایسی صورت میں نکاح کرنا واجب ہے
تنویر الابصار میں ہے:
یکون(ای)واجبا عند التوقان۔
یعنی:غلبہ شہوت کے وقت نکاح کرنا واجب ہے۔(ت)
(درمختارشرح تنویر الابصار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۸۵)
ردالمحتارمیں ہے:
قلت وکذا فیما یظھر لو کان لایمکنہ منع نفسہ عن النظر المحرم او عن الاستمناء بالکف فیجب التزوج وان لم یخف الوقوع فی الزناء۔
یعنی:میں کہتاہوں اور اسی طرح کچھ ظاہر ہوتاہے کہ اگر حالت ایسی ہوکہ یہ اپنے آپ کو نظر حرام اور مشت زنی سے نہ روك سکے تو شادی کرنا واجب ہے۔اگر چہ زنا میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ ہو۔
(ردالمحتار کتاب النکاح داراحیاء لتراث العربی بیروت ۲/ ۲۶۰)
لہذا بچے جب شادی کی عمر کو پہنچ جائیں اور بیوی کے نفقہ کا انتظام کرنے کے قابل ہوجائیں تو ان کے نکاح کا انتظام کرانا والدین کی ذمہ داری ہے، اس میں معمولی اور غیر اہم امور کی وجہ سے تاخیر کرنا بالکل مناسب نہیں، خصوصاً موجودہ ماحول میں جہاں بے راہ روی عام ہے، جلد از جلد اس ذمہ داری کو ادا کردیناچاہیے، اگر چہ رواج اس کا مخالف ہو، تمام غیر ضروری و غیر شرعی رسموں سے احتراز کر کے نکاح و شادی کو بہت آسان بنایا جاسکتا ہے، لیکن  جب تک اس کی ترتیب نہ بن پائے اگر گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے نوجوان کو چاہیے کہ  نفلی روزے رکھے،
حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ
عَنْ عَبْدِ ﷲِ فَقَالَ کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فَقَالَ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَائَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّه اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْه بِالصَّوْمِ فَإِنَّه لَه وِجَاءٌ.
یعنی:عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا: جو عورت کا مہر ادا کرسکتا ہو وہ نکاح کر لے کیونکہ یہ نظر کو جھکاتا ہے اور شرمگاہ کے لیے اچھا ہے اور جو ایسا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ روزے رکھے کیونکہ یہ شہوت کو گھٹاتا ہے۔‘‘
(بخاري، الصحيح، 2: 673، رقم: 1806، دار ابن کثير اليمامة، بيروت)
(مسلم، الصحيح، 2: 1019، رقم: 1400، دار احياء التراث العربي، بيروت)
اور ہر وقت پاکیزہ اور باوضو رہنے کا اہتمام کرے، پانچ وقت نماز باجماعت کی پابندی کرے، اٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے کثرت سے استغفار کرے، اور روزانہ دن یا رات میں کوئی ایک وقت مقرر کرکے اچھی طرح وضو کرکے تنہائی میں دو رکعت نماز، توبہ اور حاجت کی نیت سے پڑھ کر گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگے، خوب روئے، اگر رونا نہ آئے تو رونے کی کوشش کرے اور رونے جیسی شکل بنا لے، اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو تمام گناہوں، خصوصاً اس گناہ سے نجات دے دے، اور ساتھ ساتھ آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم بھی کرے۔ اس کے علاوہ وہ اچھے اور نیک لوگوں کی مجالس میں شرکت کا اہتمام کرے، بری صحبت اور گندے ماحول سے بچے، اور اہل اللہ و مشائخ کی صحبت اور ان کی مجالس میں روزانہ کچھ وقت گزارنے کی کوشش کرے۔ ان سب کاموں کے ساتھ ساتھ جلد شادی کرنے کی فکر اور کوشش کرتا رہے۔ امید ہے کہ مذکورہ امور کی پابندی کرنے سے اللہ تعالیٰ نیک ہدایت اور گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق نصیب فرمائے گا۔
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب صحیح والمجیب نجیح ٫ عبدہ محمد عطاء اللہ النعیمی عفی عنہ ٫خادم الحدیث والافتاء بجامعۃ النور٫ جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی
الجواب صحیح والنجیب نجیح,عبدہ محمد جنید النعیمی غفر لہ,دارلافتاء جامعة النور,جمیعت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی
الجواب صحیح
محمد عرفان العطاری النعیمی دار الافتاء کنز الاسلام
جامع مسجد الدعا آگرہ تاج کالونی ، پاکستان (کراچی)
باقى ما شاء الله تعالى
الجواب صحيح والمجيب نجيح
أبو الضياء محمد فرحان القادري النعيمي
دار الإفتاء الضيائية بالجامعة الغوثية الرضوية
كراتشي باكستان
الجواب الصحیح فقط محمد شکیل قادری نعیمی صاحب قبلہ 
فتوی ماشاءاللہ بہت اچھا
الجواب الصحیح فقط محمد مہتاب احمد نعیمی صاحب قبلہ 
الجواب صحیح والمجیب مصیب فقط ابو آصف مفتی راجہ محمد کاشف نعیمی رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top