جو تجارت کرے دکان پر بیٹھے اس کی امامت کیسی؟

جو تجارت کرے دکان پر بیٹھے اس کی امامت کیسی؟

مسئلہ: از شیخ واجد صدر انجمن گلشن اسالمیہ سنہٹ ضلع بالاسور (اڑیسہ)
سیدی آقائی و مولائی قبلہ مفتی صاحب! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
حضور کی خدمت اقدس میں گزارش ہے کہ ہماری مسجد میں ایک امام ہیں جو پانچ وقت نماز پڑھاتے ہیں اور محلہ کے تمام کاموں کو بھی کرتے ہیں‘ پھر کاروبار میں بھی لگے ہیں‘ اور ایک دوکان بھی کر تے ہیں روزانہ دوکان میں بیٹھتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تجارت میں جھوٹ بولا جاتا ہے۔ کیا ان کے پیچھے نماز جائز ہے؟ حضور والا سے دست بستہ گزارش ہے کہ بہت جلد جواب عنایت فرمائیں۔ ہم بہت پریشان ہیں محلہ میں پھوٹ پیدا ہو گئی ہے۔ بینوا توجروا

الجواب: امام مذکور اگر صحیح العقیدہ، صحیح الطہارۃ اور صحیح القرأۃ ہو تو تجارت مانع امامت نہیں اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے‘ اور یہ خیال کہ تجارت میں جھوٹ بولا جاتا ہے غلط ہے۔ بے شمار مسلمان جنھیں اللہ ورسول جل جلالہ و صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا خوف ہے‘ اور اپنی عاقبت کے خراب ہونے کا ڈر ہے وہ بغیر جھوٹ بولے ہوئے تجارت کرتے ہیں۔ لہٰذا تاوقتیکہ امام کا جھوٹ بول کر تجارت کرنا ثابت نہ ہو جائے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ بشرطیکہ اس میں کوئی اور دوسری شرعی خرابی نہ ہو۔ وھو تعالٰی ورسولہُ الاعلٰی اعلم جل مجدہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

کتبہ:جلال الدین احمد الامجدی
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۳۵)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top