جو کچہری میں وکیل کا محرر ہو اس کی امامت عند الشرع کیسا ہے؟

جو کچہری میں وکیل کا محرر ہو اس کی امامت عند الشرع کیسا ہے؟

مسئلہ: از پردھان محمد افضل موضع بستی پور۔ اکبر پور ضلع فیض آباد
زید حافظ قرآن ہیں‘ چالیس سال سے امامت بھی کر رہے ہیں‘ امامت اس طرح کرتے ہیں کہ عید و بقر عید کی نماز اور جب بھی وہ باہر سے آتے ہیں پابندی سے نماز پڑھاتے ہیں۔ زید چونکہ کچہری میں وکیل کے محرر ہیں اور گاؤں سے دور شہر میں محرری کرتے ہیں۔ لہٰذا دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے محرر جو کہ وکیل کے محرر ہوں ان کے پیچھے نماز ازروئے شرع جائز ہے یانہیں؟

الجواب: محرر اگر سودی لین دین اور جھوٹے مقدمات کے کاغذات لکھتا ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں اس لئے کہ سودی دستاویز اور جھوٹ لکھنے والا ملعون و فاسق ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے حدیث شریف مروی ہے:
لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اکل الربواوموکلتہ وکاتبہ وشاھدیہ وقال ھم سواء۔
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والوں، سود دینے والوں، سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے‘ اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ (مسلم۔ مشکوٰۃ ص ۲۴۴) اور اگر محرر ناجائزا مور کے کاغذات نہ لکھتا ہو اور نہ اس میں کوئی دوسری شرعی خرابی ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے کہ اس پر فتن دور میں اگرچہ ناجائز امور کے کاغذات لکھنا عام طور پر رائج ہے لیکن اللہ کے بعض نیک بندے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو وکیل کے محرر ہونے کے باوجود ناجائز کاغذات نہ لکھتے ہوں بلکہ اس قسم کے کاغذات وکیل کے دوسرے محرر لکھتے ہوں جیسے کہ بعض لوگ بال بنانے کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں مگر داڑھی نہیں مونڈتے حالانکہ اس پیشہ میں آج کل حلق لحیہ غالب ہے۔ لہٰذا تاوقتیکہ ثابت نہ ہو جائے کہ محرر مذکور ناجائز اور جھوٹے مقدمات کے کاغذات لکھتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنے کو ناجائز نہیں قرار دیا جا سکتا کہ مطلقاً ہر محرر کی امامت کو ناجائز ٹھہرانا غلط ہے۔
ھٰذا ما ظھرلی والعلم بالحق عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ جل جلالہ وصلی اللّٰہ علیہ وسلم۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۲؍ صفر المظفر ۱۴۰۳ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۲۲)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Scroll to Top