حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر آنے سے پہلے زمین و آسمان ایک دوسرے سے ملے (چپکے) ہوئے تھے یا نہیں؟
HAZRATE AADAM علیہ السلام KE ZAMEEN PAR AANE SE PAHLE ZAMEEN W AASMAAN 1 DUSRE SE MILE HUYE THE YA NAHIN?
हज़रत आदम के ज़मीन पर आने से पहले ज़मीन व आसमान एक दुसरे से मिले हुए थे या नहीं?
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر آنے سے پہلے زمین و آسمان ایک دوسرے سے ملے *(چپکے)* ہوئے تھے یا الگ الگ؟؟؟؟
جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
سائل:محمد شاہ نور علی*
*موضع گنارہ جلال آباد ضلع شاہ جہان پور یوپی۔۔۔۔* +919795564046
*وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوہاب*
مذکورہ بالا صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ
حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر آنے سے پہلے زمین و آسمان ایک دوسرے سے ملے (چپکے) ہوئے نہیں تھے
جیساکہ سید آل رسول حسنین میاں قادری برکاتی نوری قاسمی سجادہ نشین مارہرہ مطہرہ اپنی مشہور و معروف زمانہ کتاب (کیا آپ جانتے ہیں) میں تحریر فرماتے ہیں کہ پہلے پہل حق تعالیٰ نے فرشتوں کو آسمان میں اور جنات کو زمین میں بسایا تھا یہ واقعہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے ساٹھ ہزار برس پہلے ہوا تھا یہ جنات زمین میں سات ہزار سال تک آباد رہے پھر ان کا آپس میں بغض و حسد شروع ہوا چنانچہ انہوں نے آپس میں خوب جنگ اور خونریزی کی اس وقت ابلیس جس کا نام عزازیل تھا بہت مقبول بارگاہ الہی تھا اور تمام فرشتوں میں بڑا عالم اور عابد تھا اس کو حکم ہوا کہ اپنے ساتھ فرشتوں کی جماعت لےجا اور جنات کو زمین میں سے نکال کر جزیروں اور پہاڑوں میں آباد کر دے چنانچہ ابلیس نے ایسا ہی کیا جو فرشتوں ابلیس کے ساتھ آئے تھے وہ اس زمین پر بسا دیئے گئے لہذا اب فرشتوں کے دو حصے ہو گئے ایک زمین والے دوسرے آسمان والے اللہ تعالی نے اس خدمت کے عوض ابلیس کو زمین اور آسمان کی بادشاہت اور جنت کے خزانے عطا فرمائے لہذا یہ کبھی میں عبادت کرتا کبھی آسمان میں کبھی جنت میں پر ایک سجدہ نہ کرنے کے جرم میں راندہ بارگاہ قرار دیا گیا
( کیا آپ جانتے ہیں چھٹا باب تخلیق کائنات صفحہ 237)
صاحب عمدۃ القاری تحریر فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کا فاصلہ ہے
(عمدۃ القاری ص 200)
بلکہ تخلیق آدم علیہ السلام سے کئی ہزار برس پہلے زمین و آسمان ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے لیکن اس میں بھی دو قول ہیں ایک قول میں یہ ذکر ہے کہ زمین و آسمان نہیں ملے ہوئے تھے بلکہ آسمان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بند تھی اسے سبزہ نہیں اگتا تھا دوسرے قول میں یہ ذکر ہے کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
اَوَ لَمۡ یَرَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ کَانَتَا رَتۡقًا فَفَتَقۡنٰہُمَا ؕ وَ جَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۳۰﴾
یعنی کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے انھیں کھولا اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان لائیں گے،
(پ 17 سورہ انبیاء آیت 30)
اس آیت میں فرمایا گیا کہ آسمان و زمین ملے ہوئے تھے،اس سے ایک مراد تویہ ہے کہ ایک دوسرے سے ملا ہوا تھا ان میں فصل و جدائی پیدا کرکے انہیں کھولا گیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ آسمان اس طور پربند تھا کہ اس سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین اس طور پربند تھی کہ اس سے نباتات پیدا نہیں ہوتی تھیں ، تو آسمان کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے بارش ہونے لگی اور زمین کا کھولنا یہ ہے کہ اس سے سبزہ پیدا ہونے لگا۔
( خازن، الانبیاء، تحت الایۃ: 275/3 30)
اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں دو لفظ
فتق اور رتق ارشاد فرمایا ان کے معنی یہ ہیں
📿اولم یرالذین کفروا : اس سے مراد حاسہ بصر سے دیکھنا نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد علم اور جاننا ہے، یعنی کیا کافروں نے یہ نہیں جانا۔-
📿رتقا : دو چیزوں کا ملا ہوا ہونا، خواہ وہ قدرتی اور پیدائشی طور پر ملی ہوئی ہوں، یا صنعت اور کاری گری سے دو چیزوں کو ملا دیا ہو یا دو چیزیں چپک کر ایک ہوگئی ہوں، اور اس کا معنی بند ہونا بھی ہے۔-
📿ففتقنھما : الفق کا معنی ہے دو متصل چیزوں کو الگ الگ کرنا، یہ رتق کی ضد ہے، دو جڑی ہوئی چیزوں کو الگ الگ کر کے ایک دوسرے سے متمیز کردینا۔-
آسمان اور زمین کے ملنے اور نہ ملنے کی تفسیر مفسرین کرام نے حسب ذیل کی ہیں :-👇
🏷 عبداللہ بن دینار نے حضرت ابن عباس (رضیاللہ تعالی عنہما) سے روایت کیا ہے آسمان بند تھے۔ ان سے بارش نہیں ہوئی تھی اور زمین بند تھی اس سے سبزہ نہیں اگتا تھا، پھر آسمان کو بارش سے کھول دیا گیا اور زمین کو سبزہ اگانے کے ذریعہ کھول دیا گیا، عطا اور مجاہد اور ضحاک سے بھی یہی مروی ہے۔ 👇
👆پہلے قول کو اس سے اخذ کر لیں
🏷 العوفی نے حضرت ابن عباس (رضیاللہ تعالی عنما) سے روایت کیا ہے کہ آسمان اور زمین پہلے ملے ہوئے تھے اللہ تعالی نے ان کو کھول کر الگ الگ اور متمیز کردیا، حسن، سعید بن جبیر اور قتادہ سے بھی یہی روایت ہے۔
اور اس معنی کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے، چنانچہ حلیۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس آیا اور آسمانوں اور زمین کے بارے اللہ تعالی کے اس فرمان ’’ كانتا رتقا ففتقنهما‘‘کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھ لو، پھر جو وہ جواب دیں مجھے بھی بتانا۔ وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ہاں آسمان ملا ہوا تھا اس سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بھی ملی ہوئی تھی کوئی چیز نہ اگاتی تھی پھر جب اللہ تعالی نے زمین پر مخلوق کو پیدا کیا تو آسمان کو بارش کے ساتھ اور زمین کو نباتات کے ساتھ پھاڑ دیا۔ وہ شخص حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس واپس آیا اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کاجواب سنایا تو حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا ’’ بے شک حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کو علم عطا کیا گیا ہے، انہوں نے سچ اور صحیح فرمایا ہے، وہ بالکل اسی طرح تھے۔
✒ حلیۃ الاولیاء، ذکر الصحابۃ من المہاجرین، عبد اللہ بن عباس، ۱/۳۹۵، روایت نمبر ۱۱۲۸👇
👆دوسرے قول کو اس سے اخذ کر لیں
🕹مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر آنے سے پہلے ایک دوسرے سے ملے(چپکے) ہوئے نہیں تھے
بلکہ تخلیق آدم علیہ السلام سے کئی ہزار برس پہلے زمین و آسمان ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے لیکن اس میں بھی دو قول ہیں ایک قول میں ذکر ہے کہ زمین و آسمان نہیں ملے ہوئے تھے دوسرے قول میں ذکر ہے کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
*(بتاریخ ۲۰/ جولائی بروز منگل ۲۰۱۹/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
🌍ــــــــــــــــــ✿☁️✿ـــــــــــــــــــ🌎
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی حال عزیزیہ ؛مکہ مکرمہ
🌍ــــــــــــــــــ✿☁️✿ـــــــــــــــــــ🌎