حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں یا نہیں؟اگر حضرت اسحق علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں تو عام لوگ اپنے مضمون اور بیان میں حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ساتھ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ہیں؟حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی ہوئی یا حضرت اسحاق علیہ السلام کی؟اس پر دس روشن دلیلیں

حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں یا نہیں؟
اگر حضرت اسحق علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں تو عام لوگ اپنے مضمون اور بیان میں حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ساتھ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے ہیں؟
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی ہوئی یا حضرت اسحاق علیہ السلام کی؟
اس پر دس روشن دلیلیں

مسئلہ:
از عبداللہ رفیق کا نپور
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام دونوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں یا نہیں؟
اگر حضرت اسحق علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ہیں تو عام لوگ اپنے مضمون اور بیان میں حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ساتھ ان کا ذکر کیوں نہیں کرتے۔
کیا وہ نبی نہیں تھے اور کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کی۔
اور قربانی کس کی ہوئی؟ اہل کتاب حضرت اسحق علیہ السلام کی قربانی بتاتے ہیں۔
لہٰذا اس مسئلہ کو دلیلوں کے ساتھ تحریر فرمائیں کرم ہو گا؟
الجواب: بے شک حضرت اسمٰعیل اور حضرت اسحق علیہما السلام دونوں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے ہیں‘
اور حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے ساتھ حضرت اسحاق علیہ السلام کا بھی ذکر کیا جاتا ہے لیکن اگر کسی نے ان کے ساتھ اپنے کسی مضمون و بیان میں حضرت اسحق علیہ السلام کا ذکر نہ کیا تو عدم ذکر اس بات پر محمول نہ کیا جائے گا کہ صاحب مضمون و بیان کو حضرت اسحق علیہ السلام کے نبی ہونے پر ایمان نہیں یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صاحبزادہ ہونا اسے تسلیم نہیں بلکہ جمہور علماء کے نزدیک چونکہ قربانی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی ہوئی۔
ذبیح اللہ یہی ہیں اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کعبہ معظمہ کی تعمیر انہوں نے کی‘ آب زمزم ان کے قدم مبارک کے نیچے جاری ہوا‘ مکہ معظمہ ان کے سبب آباد ہوا‘ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے نبی سیّد الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی پاک نسل سے پیدا ہوئے۔
یہ تمام یادگاریں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی سے متعلق ہیں کہ مسلمان روزانہ پانچ وقت ان کے بنائے ہوئے کعبہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھتا ہے۔
ان کی قربانی کے سبب بے شمار جانوروں کی ہر سال قربانی کرتا ہے۔
لاکھوں مسلمان ہر سال مکہ شریف میں حاضر ہو کر ان کے بنائے ہوئے کعبہ معظمہ کا اپنی آنکھوں سے نظارہ کرتے اور طواف کرتے ہیں۔
صفا و مروہ کے درمیان ان کے لئے پانی کی تلاش میں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے سعی کرنے کے سبب سعی کرتے ہیں۔
ان کی قربان گاہ منی میں ٹھہرتے اور قربانی کرتے ہیں۔ ان کے لئے جاری شدہ آب زمزم کوپیتے ہیں اور ساری دنیا کے گوشے گوشے میں اسے پہنچاتے ہیں ان وجوہات کے سبب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا ذکر زیادہ ہونا فطری امر ہے جس سے کوئی عقل سلیم رکھنے والا انکار نہیں کرسکتا۔ برخلاف اس کے حضرت اسحق علیہ السلام سے کوئی خاص واقعہ متعلق نہیں اور اسلام میں ان کی کوئی یادگار نہیں اس لئے ان کا چرچا کم ہوتا ہے۔

اور قربانی کس کی ہوئی بے شک یہ مسئلہ اہل کتاب اور اہل اسلام کے درمیان مختلف فیہ ہے یہود و نصاریٰ اور کچھ اہل اسلام حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ نہیں تسلیم کرتے بلکہ حضرت اسحق علیہ السلام کو ذبیح اللہ ٹھہراتے ہیں۔ لیکن جمہور اہل اسلام کے نزدیک قربانی کا واقعہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی سے متعلق ہے نہ کہ حضرت اسحق علیہ السلام سے جس کی تفصیل قرآن کریم میں اس طرح مذکور ہے:
وَقَالَ اِنِّیْ ذَاہِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِo رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo فَبَشَّرْنٰـہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍo فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰـبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَا تَرٰیط قَالَ یٰٓـاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُز سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَo فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِo وَنَادَیْنٰـہُ اَنْ یّٰـاِبْرٰہِیْمُo قَدْ صَدَّقْتَ الرُّئْ یَاج اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُo وَفَدَیْنٰـہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍo وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی ا لْاٰخِرِیْنَo سَلٰمٌ عَلٰٓی اِبْرٰہِیْمَo کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَo اِنَّـہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَo وَبَشَّرْنٰـہُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَo،
(سورۂ الصفت پارہ ۲۳‘ رکوع ۷)
اور کہا میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں اب وہ مجھے راہ دے گاo الٰہی مجھے لائق اولاد دےo تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقل مند لڑکے کیo پھر جب وہ اس کے ساتھ کے قابل ہو گیا‘ کہا: اے میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو دیکھ تیری کیا رائے ہے۔ کہا: اے میرے باپ! کیجئے جس بات کا آپ کا حکم ہوتا ہے‘ خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابر پائیں گےo تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایاo (اس وقت کا حال نہ پوچھ) اور ہم نے اسے ندا فرمائی کہ اے ابراہیم oبے شک تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کوo بیشک یہ روشن جانچ تھیo اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے فدیہ میں دے کر اسے بچا لیاo اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھیo سلام ہو ابراہیم پرo ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کوo بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہیںo اور ہم نے اسے خوشخبری دی اسحق کی کہ غیب کی خبریں بتانے والا نبی ہمارے قرب خاص سے سزاواروں میں ان آیات طیبات سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وہ صاحبزادے جو دعا سے پیدا ہوئے وہی ذبیح اللہ ہوئے مگر ان کا نام مذکور نہیں البتہ واقعہ کی تفصیل کے بعد حضرت اسحق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت ہے اس لیے کچھ اہل اسلام بھی حضرت اسحق علیہ السلام کو ذبیح اللہ قرار دیتے ہیں لیکن جمہور اہل اسلام جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبیح اللہ مانتے ہیں ان کے دلائل درج ذیل ہیں:
(۱) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انا ابن الذبیحی
یعنی میں دو ذبیح کا بیٹا ہوں صححہ ابن الجوزی۔


اور ایک اعرابی نے حضور کو یا ابن الذبیحین کہہ کر پکارا تو حضور نے تبسم فرمایا۔
(اخرجہ الحاکم)
جب لوگوں نے حضور سے ابن الذبیحین کی وجہ دریافت کی تو حضور نے فرمایا کہ ایک ذبیح تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں جو ہمارے آبائے کرام میں سے ہیں‘ اور دوسرے ذبیح ہمارے باپ حضرت عبداللہ ہیں کہ جب حضرت عبدالمطلب نذر پوری کرنے کے لئے انہیں ذبح کرنے چلے تو سو اونٹ کے فدیہ سے ان کی جان بچی اس طرح میں ابن الذبیحین ہوں۔
(تفسیر کبیر)
معلوم ہوا کہ ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت اسحق علیہ السلام۔
(۲) حضرت اصمعی نے حضرت عمرو بن العلاء سے دریافت کیا کہ ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں یا حضرت اسحق علیہ السلام؟ تو انہوں نے فرمایا:
اے اصمعی! تمہاری عقل کہاں ہے؟ حضرت اسحق علیہ السلام مکہ میں کب تھے وہ تو ملک شام میں تھے۔ مکہ معظمہ میں تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی تھے۔ انہوں نے اپنے باپ کے ساتھ کعبہ معظمہ کی تعمیر کی اور قربان گاہ مکہ ہی میں ہے۔
(تفسیر کبیر و معالم التنزیل)
ثابت ہوا کہ ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی ہیں۔
(۳) قال اللّٰہ تعالٰی: وَاِسْمٰعِیْلَ وَ اِدْرِیْسَ وَذَالْکِفْلِ کُلٌّ مِّنَ الصّٰبِرِیْنَ
(پارہ ۱۷، رکوع ۶)
خداتعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں حضرت اسمٰعیل علیہ اسلام کوصابر فرمایا کہ انہوں نے ذبح پر صبر کیا اور حضرت اسحق علیہ السلام کو کہیں صابر نہ فرمایا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بارے میں
اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ
(پارہ ۱۶- رکوع ۷)
یعنی وہ وعدہ کے سچے ہیں کہ انہوں نے ذبح پر صبر کرنے کا جو اپنے باپ سے وعدہ کیا تھا اس کو پورا فرمایا۔ اس لئے ماننا پڑے گا کہ ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت اسحق علیہ السلام۔(۴) قال اللّٰہ تعالٰی:
فَبَشَّرْنَاھَا بِاِسْحٰقَ وَمِنْ وَّرَآئِ اِسْحٰقَ یَعْقُوْبَ
(پارہ ۱۲- رکوع ۷)
اس آیت کریمہ میں حضرت اسحق علیہ السلام کی ولادت کی بشارت کے ساتھ ان سے حضرت یعقوب علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بھی خبر دی گئی ہے تو اگر حضرت اسحق علیہ السلام کے بارے میں ذبح کا حکم مانا جائے تو دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو ذبح کا حکم حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ہوا یا بعد میں‘ اگر حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے ذبح کا حکم مانا جائے تو صحیح نہیں۔ اس لئے کہ جب ان کی ولادت کی خبر پہلے دی جا چکی ہے تو بیٹے کی پیدائش سے پہلے باپ کا ذبح کا حکم دینا وعدۂ الٰہی کے خلاف ہو گا جو باطل ہے‘ اور اگر حضرت یعقوب علیہ السلام کی پیدائش کے بعد ان کے باپ حضرت اسحق علیہ السلام کے لئے ذبح کا حکم مانا جائے تو بھی باطل ہے اس لئے آیت کریمہ:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ
(پارہ ۲۳- رکوع ۷)
سے معلوم ہوا کہ ذبح کا واقعہ بیٹے کی کم عمری میں ہوا۔

لہٰذا حضرت اسحق علیہ السلام کو ذبیح اللہ ٹھہرانا صحیح نہیں۔
(۵) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خداتعالیٰ سے دعا کی:
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
(پارہ ۲۳- رکوع ۷)
یعنی اے میرے پروردگار! مجھے نیک اور صالح اولاد عطا فرما۔ جس سے معلوم ہوا کہ دعا کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کوئی اولاد نہ تھی اس لئے کہ طلب حاصل محال ہے۔ اگر دعا کے وقت کوئی اولاد ہوتی تو یوں دعا کرتے کہ پروردگار! مجھے دوسری اولاد عطا فرما۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ دعا پہلے بیٹے کے لئے تھی اور سب مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام سے پہلے پیدا ہوئے
(تفسیر کبیر)
اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دونوں صاحبزادوں کی پیدائش پر خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا ذکر پہلے کیا اور حضرت اسحق علیہ السلام کا ذکر بعد میں۔
سورۂ ابراہیم میں ہے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبْ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ
(پارہ ۱۳- رکوع ۱۸)
تفسیر جلالین میں ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اس وقت پیدا ہوئے جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۹۹ سال تھی اور جب آپ کی عمر ۱۱۲ سال ہوئی تو حضرت اسحق علیہ السلام پیدا ہوئے اور تفسیر خازن و معالم التنزیل میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب آپ کی عمر ۹۹ سال ہوئی تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پیدا ہوئے اور ۱۱۲ سال کی عمر پر حضرت اسحق علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر جب ۱۱۷ برس کی ہوئی تو ان کو حضرت اسحق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت دی گئی۔
اور تفسیر کبیر میں ہے:
بعض لوگوں کے نزدیک حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ۹۹؍ سال اور حضرت اسحق علیہ السلام ۱۱۲؍ سال کی عمر میں پیدا ہوئے اور بعض علماء کا یہ قول ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۶۴ برس ہوئی تو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پیدا ہوئے اور حضرت اسحق علیہ السلام کی پیدائش ۹۰؍ سال کی عمر میں ہوئی‘ اور حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خلاصہ یہ کہ ان اقوال کے مابین سال کی تعین میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن سب اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پہلے پید ہوئے یعنی ان کی ولادت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سے ہوئی بلکہ اسی لئے ان کا نام اسمٰعیل پڑا۔
جیسا کہ تفسیر خازن و معالم التنزیل میں ہے کہ
حضرت ابراہیم علیہ السلام اولاد کی دعا کرتے تھے اور کہتے تھے اسمع یاایل یعنی اے خدا تعالیٰ سن لے۔ اس لئے کہ ’’ایل‘‘ سریانی زبان میں خداتعالیٰ کو کہتے ہیں تو جب خداتعالیٰ نے ان کی دعا سن لی اور صاحبزادے پیدا ہوئے تو ان کا نام وہی دعا کا جملہ اسمع ’’یا ایل‘‘ رکھا گیا جو کثرت استعمال سے اسمٰعیل ہو گیا۔


اور تورات میں ہے کہ حضرت اسمٰعیل دعوت ابراہیم ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم کی دعا سے پیدا ہوئے اسی بنا پر خدا نے ان کا نام اسمٰعیل رکھا کیونکہ عبرانی زبان میں اسمٰعیل دو لفظوں سے بنا ہے۔ ’’اسمع‘‘ اور ’’ایل‘‘۔ اسمع کے معنی ہیں: سننا اور ایل کے معنی ہیں: خدا
(تکوین اصحاح ۱۵- ۱۷-۱۸)
ان حوالوں سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ قرآن کریم کی آیات مبارکہ:
رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ژ فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ
حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق ہیں پھر متصلاً  فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ سے واقعہ ذبح کا بیان اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی ہیں نہ کہ حضرت اسحق علیہ السلام‘ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پہلونٹے ہیں اور قربانی کے وقت اکلوتے بھی‘ اس لئے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق آپ حضرت اسحق علیہ السلام سے تیرہ سال بڑے تھے‘ اور دوسری روایتوں کے لحاظ سے اٹھارہ یا چھبیس سال بڑے تھے۔ تورات میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جس بیٹے کی قربانی کا حکم ہوا تھا اس کے بارے میں تصریح تھی کہ وہ اکلوتا ہو اور محبوب ہو۔
(تکوین اصحاح ۲۲- آیت ۱۲)
(۶) حضرت اسحق علیہ السلام کی بشارت ’’سورۂ حجر‘‘ میں غلم علیم کے ساتھ ارشاد ہے:
اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ
(پارہ ۱۴ رکوع ۴)
یعنی ہم آپ کو علم والے بچے کی بشارت دیتے ہیں‘ اور سورہ ’’ذاریات‘‘ میں ہے کہ فرشتوں نے ان کی ولادت کی بشارت غلم علیم کے ساتھ دی۔ ارشاد ہے:
وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ
(پارہ ۲۶ رکوع آخر)
یعنی فرشتوں نے بھی انہیں علم والے بچے کی بشارت دی مگر جس بچے کی قربانی ہوئی اس کی بشارت غلم حلیم کے ساتھ ہے۔
ارشاد ہے
فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ
(پارہ ۲۳ رکوع ۷)
یعنی ہم نے اس کو متحمل مزاج بچے کی بشارت دی۔
معلوم ہوا کو حضرت اسحق علیہ السلام صفت علم سے متصف ہوئے اور دوسرے صاحبزادے جن کی قربانی ہوئی وہ صفت حلم سے متصف ہوئے۔ لہٰذا حضرت اسحق علیہ السلام کو ذبیح اللہ ٹھہرانا صحیح نہیں۔
(۷) سورۂ الصفت کی آیات میں واقعہ ذبح سے پہلے فرمایا:
فَبَشَّرْنَاہُ بِغُلٰمٍ حَلِیْمٍ
پھر بعد میں فرمایا:
وَبَشَّرْنَاہُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ
یعنی دوسری آیت کا پہلی آیت پر عطف ہے‘ اور معطوف و معطوف علیہ میں مغائرت ہوتی ہے تو ثابت ہوا کہ ذبح کا واقعہ حضرت اسحق علیہ السلام کے غیر یعنی دوسرے صاحبزادے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے متعلق ہے۔


(۸) جو مینڈھا کہ فدیہ میں ذبح کیا گیا تھا اس کی سینگ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد کے قبضہ میں تھی جو کعبہ میں لٹکائی ہوئی تھی‘ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں یزیدی حملہ سے جل گئی اس کے بارے میں اخبار کثیرہ ہیں
(تفسیر کبیر)
حضرت شعبی نے فرمایا کہ مینڈھا کی سینگ ہم نے کعبہ میں لٹکی ہوئی دیکھی‘ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدر میں میری جان ہے کہ ابتدائے اسلام میں مینڈھا کا سر اپنی دونوں سینگوں کے ساتھ کعبہ میں لٹکا ہوا تھا۔ جو سوکھا ہوا تھا۔
(تفسیر خازن و معالم التنزیل)
معلوم ہوا کہ ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں اور حضرت اسحق علیہ السلام ذبیح اللہ ہوتے تو مینڈھے کی سینگ ملک شام میں ان کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضہ میں ہوتی۔
(۹) حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی نسل اور ان کی ملت کے متبعین میں قربانی کی متعدد یادگاریں آج تک پائی جا رہی ہیں۔ توراۃ میں ہے کہ جو بچہ خدا کی نذر کر دیا جاتا اس کے سر کے بال چھوڑ دیئے جاتے پھر معبد کے پاس مونڈے جاتے تھے
(قضاۃ اصحاح ۱۳-۱۴)
تو مسلمان حج و عمرہ کا احرام باندھتے ہی بالوں کے مونڈنے۔ کترنے اور اکھاڑنے سے رک جاتا ہے پھر حج و عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد ہی مونڈاتا یا کترواتا ہے۔
اور توراۃ میں ہے کہ جب خدا نے حضرت ابراہیم کو قربانی کا حکم دینا چاہا تو پکارا: اے ابراہیم! تو حضرت ابراہیم نے کہا میں حاضر ہوں
(تکوین اصحاح ۲۲ آیت ۱)
تو مسلمان حج یا عمرہ کا احرام باندھتے ہی پکارتا رہتا ہے لبیک لبیک یعنی میں حاضر ہوں۔ میں حاضر ہوں۔
اور صاحبزادے کے بدلے جانور ذبح ہوا تو قران و تمتع کرنے والوں پر اور چند شرطوں کے ساتھ ہر صاحب استطاعت مسلمان پر ہر سال قربانی واجب کی گئی۔ حدیث شریف میں ہے:
سُنَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ۔
یعنی قربانی تمہارے باپ ابراہیم کی سنت ہے ۔
(احمد ابن ماجہ)
قربانی کی یہ تمام یادگاریں مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں نہ کہ بنی اسرائیل میں۔ اگر حضرت اسحق علیہ السلام کی قربانی ہوئی ہوتی تو اس کی یادگاریں بنی اسرائیل میں ضرور پائی جاتیں۔ معلوم ہوا کہ ذبیح اللہ حضرت اسحق علیہ السلام نہیں ہیں۔ ذبح کا واقعہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی سے متعلق ہے‘ اور بنی اسرائیل صرف بغض و عناد سے اس کے ذبیح ہونے کا انکار کرتے ہیں۔

(۱۰) خداتعالیٰ نے واقعۂ ذبح میں فرمایا:
فَلَمَّا اَسْلَمَا
یعنی جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھ دی۔
اسلما کا مصدر اسلام ہے جس کے معنی ہیں: فرمانبردار ہونا۔ کسی کی بات ماننا‘ تو ذبح کا حکم دونوں کے مان لینے کو خداتعالیٰ نے اسلمنا سے تعبیر فرمایا یعنی ان دونوں کو مسلم قرار دیا۔ پھر اس عظیم کارنامہ کے صلہ میں ان کے وارثین و متبعین کا نام مسلمان رکھا کہ اعزازی نام نسلاً بعد نسل چلتا رہتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
ھُوَسَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا
(پارہ ۱۷- آخری آیت)
تفسیر جلالین میں ہے:
ای قبل ھٰذا الکتاب وفی ھٰذا القرآن
و آیت کریمہ کا خلاصہ یہ ہوا کہ خداتعالیٰ نے اس کتاب سے پہلے اور اس قرآن میں تمہارا نام مسلمان رکھا۔
لہٰذا قربانی کے اعزاز میں ملا ہوا خطاب ’’مسلمان‘‘ جن کے وارثین و متبعین کا ہو وہی ذبیح اللہ ہیں اور وہ ذبیح اللہ نہیں ہیں کہ جن کے وارثین و متبعین اپنے کو بنی اسرائیل اور یہود و نصاریٰ وغیرہ دوسرے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
تلک عشرۃ کاملۃ منصف مزاج کے لئے یہ دس دلیلیں کافی ہیں جن سے روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ذبیح اللہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں نہ کہ حضرت اسحق علیہ السلام۔
وھو تعالٰی اعلم۔

کتبہ:
جلال الدین احمد الامجدی
۲۴؍ ربیع الاول ۱۳۹۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۳۸/۳۷/۳۶/۳۵/۳۴/۳۳/۳۲)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top