حلال یا حرام جانور کو جان لیوا وائرس کی وجہ سے جلا کر مارنا کیسا ہے؟
HALAAL YA HARAAM JANWAR KO JAAN LEWA VARUS KI WAJAH SE JALA KAR MARNA KAISA HAI?
हलाल या हराम जनवर को जान लेवा वारस की वजह से जला कर मारना कैसा है?
📿السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ📿
_****************************************_
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ👇
(1) کسی حرام جانور کو جان لیوا وائرس کی وجہ سے جلا کر مارنا کیسا ہے
مثلا چین میں خنزیروں کو بڑی کھائیوں میں گرا کر اوپر سے آگ بھڑکا کے جلا کر ہلاک کر دیا گیا
(2)مرغیوں کو گردن اڑا کر یا کرنٹ لگاکر یا زندہ دفنا کر کے یا جلا کر مارا گیا
(3)اسپتالوں اور تعلیمی اداروں یا دفاتروں میں الیکٹرانک برنر کے ذریعے اڑنے والے کیڑے مکوڑے مچھر مکھی بھنگا پروانہ وغیرہ کو جلاکر مارا جاتا ہے اور اس سے پٹاخے کی آواز آتی ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ اس طرح کا عمل کرنا عند الشرع کیسا ہے
💢قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
💢سائل💢احقر ناصرالدین صدیقی جامعہ کراچی بتاریخ ۱۳ رجب المرجب سن ۱۴۴۱ھجری مطابق ۹ مارچ سن ۲۰۲۰ عیسوی بروز پیر
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
اس کے متعلق حکم شرعی یہ ہے کہ کسی عذر شرعی کے ما تحت حلال یا حرام جانوروں کو مارنا جائز ہے جیساکہ موذی جانوروں کو مارنے کی اجازت ہے اور مذکورہ بالا مسئلے میں تو بدرجہ اتم مارنا ضروری ہے کیونکہ ان جانوروں میں ایک جان لیوا وائرس موجود ہے
حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت العلام مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی کتاب بہار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں کہ
: کسى نے کٹکھنا کتا پال رکھا ہے یعنی کاٹ کھانے والا جو راہ گیروں کو کاٹ کھاتا ہے تو بستى والے ایسے کتے کو قتل کرڈالیں، بلى اگر ایذا پہنچاتى ہے تو اسے تیز چھرى سے ذبح کر ڈالیں، اسے ایذا دے کر نہ ماریں ۔
📗✒بہارِ شریعت ، ۳ / ۶۵۵، حصہ : ۱۶
لیکن ملک چین میں جانوروں کو مارنے کا جو طریقہ استعمال کیا گیا وہ عند الشرع جائز نہیں ہے کیونکہ شریعت نے کسی بھی جاندار کوجلانے سے ممانعت فرمائی ہے۔
حدیث شریف میں ہے
عن عبد الرحمن بن عبد الله ، عن أبيه ، قال کنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وسلم في سفر ، فانطلق لحاجته ، فرأينا حمرة معها فرخان فاخذنا فرخيها ، فجاءت الحمرة فجعلت تعرش فجاء النبي صلى الله عليه وسلم ، قال من فجع ھذہ بولدها ؟ ردوا ولدها إليها و رأى قرية نمل قد حرقناها فقال من حرق ھذہ ؟ قلنا نحن قال انہ لا ینبغی ان یعذب بالنار الا رب النار یعنی حضرت عبد الرحمن بن عبداللہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں انہوں کہا کہ ہم سفر میں رسول اللہ
صلی الله عليه وسلم کے ساتھ تھے آپ قضائے حاجات کو تشریف لے گئے ہم نے ایک چڑیا دیکھی جس کے دو بچے تھے ہم نے اس کے دونوں بچے پکڑ لئے تو چڑیا پر بچھانے لگی اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے آپ نے فرمایا اسے اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تڑپایا ہے اس کے بچے اسے واپس کردو اور پھر آپ نے ایک چیونٹیوں کا بل دیکھا جسے ہم جلا دیا تھا فرمایا کہ اسے کس نے جلایا ہم نے کہا کہ ہم نے جلایا ہے فرمایا کہ آگ کے ساتھ عذاب دینا آگ پیدا کرنے والے کے سوا کسی کے لئے مناسب نہیں ہے
📗✒سنن ابو داود، کتاب الادب،باب في قتل الذر، ج 2 ص 714
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جاندار کو جلانے کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالی کو ہے بندے کو اس کی اجازت نہیں علامہ ابن حجر عسقلانی رضی اللہ تعالی عنہ شرح بخاری میں فرماتے ہیں
و أما في شرعنا فلا يجوز أحراق الحيوان بالنار الا في القصاص بشرطه یعنی ہماری شریعت میں جاندار کو جلانا جائز نہیں ہے البتہ قصاص میں اس کی شرط کے ساتھ اجازت ہے
📗✒فتح الباری شرح صحیح بخاری ج 6 ص 358
اور در مختار میں ہے
في المبتغی یکره احراق جراد و قمل وعقرب ولا بأس بأحراق حطب فيما نمل
مبتغی میں ہے کہ ٹڈی اور گھن اور بچھو جلانا مکروہ ہے اور اگر لکڑی میں ہو تو اس لکڑی کو جلانے میں کوئی حرج نہیں
علامہ شامی نے اس کراہت کو کراہت تحریمی قرار دیا ہے یکرہ احراق جراد کے تحت فرماتے ہیں ای تحریما یعنی ٹڈی وغیرہ کو جلانا مکروہ تحریمی ہے
📗✒کتاب الخنثی ج 10 ص 482
محیط برہانی میں ہے
وفي فتاوی أهل سمر قند إحراق القمل و العقرب بالنار مکروه، جاء في الحديث لا يعذب بالنار إلا ربها یعنی فتاوی اہل سمر قند میں ہے ٹڈی اور بچھو کو جلانا مکروہ ہے حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ آگ سے عذاب نہیں دے گا مگر آگ کا پیدا کرنے والا
📗✒محیط برہانی ج 5 ص 254 الفصل الثالث و العشرون
🕹مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ کسی جانور کو جلانا جائز نہیں ہے کیونکہ جلاکر عذاب دینا صرف اور صرف اللہ تعالی کےلئے ہے
👈(2)اور رہی بات مرغیوں کو کرنٹ لگاکر یا زندہ دفنا کر کے یا جلا کر مارنا یہ بھی عند الشرع جائز نہیں ہے
اس کے بجائے اس کو ذبح کر دیا جائے ۔ 👈(3)اور رہی بات اسپتالوں اور تعلیمی اداروں یا دفاتروں میں الیکٹرانک برنر کے ذریعے اڑنے والے کیڑے مکوڑے مچھر مکھی بھنگا پروانہ اور حشرات الارض وغیرھم چوں کہ موذی جانور ہیں ،اس لیے انہیں مارنا جائز ہے، لیکن جب تک انہیں مارنے کا کوئی اور طریقہ موجود ہو، انہیں جلانا جائز نہیں ہے۔ آج کل مچھر وغیرہ کو مارنے کے لیے جو جدید آلات دستیاب ہیں، ان میں سے بعض تو وہ مشینیں ہیں جنہیں دیوار پر نصب کیا جاتا ہے، اور بعض ریکٹ نما ہیں ،جنہیں ہاتھ میں لے کر گھمایا جاتا ہے، ان مشین میں یہ حشرات شعاع یا کرنٹ سے مرتے ہیں یا ان سے آگ نکلتی ہے اور اس سے جل کر مرتے ہیں یہ جائز نہیں ہے
اور یہ حقیقت ہے کہ مچھر اور مچھر کے علاوہ جانور مہلک جانور ہیں ان کے کاٹنے سے انسان کے جسم میں ڈینگو بخار ملیریا اور ٹائی فائڈ جیسی بہت ساری مہلک بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں اور ان بیماریوں کے سبب انسان کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے لیکن مچھروں اور اس کے علاوہ جانوروں کو بھگانے اور مارنے کے اور بہت سارے طریقے موجود ہیں ان کے ہوتے ہوئے اس طریقہ کار کو اپنانا کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہونا چاہیے
🕹مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ کسی جانور کو جلاکر مارنا عند الشرع جائز نہیں ہے البتہ موذی جانوروں کو بغیر زندہ جلائے مارنا ممکن نہ ہو تو اسے جلا ڈالنا جائز ہے جیساکہ حکیم الامت حضرت العلام مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی حنفی رحمۃ اللہ علیہ متوفی ۱۳۹۱ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر موذی جانوروں کو بغیر زندہ جلائے مارنا ممکن نہ ہو تو اسے جلا ڈالنا جائز ہے
📗✒مرآۃ الماجیح کتاب الصید باب ما یکل اکلہ و ما یحرم ج 5 تحت الحدیث 1015 مطبوعہ قادری پبلشرز لاہور
_****************************************_
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی ارشدی نائےگائوں ضلع ناندیڑ مہاراشٹرا مدرس جامعہ قادریہ رضویہ ردرور منڈل ضلع نظام آباد تلنگانہ الھند ـ*(بتاریخ ۱۱/مارچ بروز بدھ۲۰۲۰/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
🕯الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی
🕯ماشاءاللہ بہت خوب الجواب’ ھو الجواب واللہ ھوالمجیب المصیب المثاب فقط محمد آفتاب عالم رحمتی مصباحی دہلوی خطیب و امام جامع مسجد مہا سمند (چھتیس گڑھ)
🕯الجواب صحیح والمجیب نجیح ماشاء اللہ بہت عمدہ مدلل ومفصل جواب اللہ ﷻ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے علم وعمل میں برکتیں عطافرماۓ ۔آمین ۔ العبد محمد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام بتھریاکلاں ڈومریا گنج سدھارتھ نگر یوپی
🕯ماشاء الله مفصل جواب الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط محــــمد معصــوم رضا نوری منگلور کرناٹک انڈیا
🕯*ماشاءاللہ بہت عمدہ جواب*
الجواب صحیح والمجیب نجیح فقط محمد الطاف حسین قادری خادم التدریس دارالعلوم غوث الورٰی ڈانگا لکھیم پور کھیری یوپی الھند*
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁