خطبہ کی اذان حضرت عثمان غنی کے زمانے میں کہاں ہوتی تھی؟
اذان خطبہ مسجد کے باہر کب مسنون ہوئی؟
تثویب سلاطین کے لیے تھی اب جواز کی کیا صورت ہے؟
امام قد قامت الصلوۃ پر نماز شروع کر دے اور مقتدی حی علی الفلاح پر کھڑے ہوں تو ان کو تکبیر اولی کیسے ملے گی؟
خطبہ کی اذان ممبر کے پاس خلاف سنت بدعت سیئہ ہے۔
فقہاء کرام کی عبارات میں بین یدیہ کا مطلب کیا ہے؟
ہشام کا خطبہ کی اذان مسجد کے اندر دلوانا ثابت نہیں۔
ظالم ہشام نے حضرت امام حسین کے پوتے حضرت زید کو سولی پر لٹکایا اور برسوںلاش اسی پر لٹکتی رہی دفن نہیں ہونے دیا۔
ایک دیوبندی ندوی کے فتوی پر بحث
اہل حدیث کے مفتی محمد ظہور صاحب ندوی کا رد
مسئلہ: از محمد ادریس حنفی لکھنوی اشوک نگر۔ لکھنؤ
بخدمت اقدس حضرت مولانا جلال الدین احمد الامجدیؔ زاد مجد کم مفتی فیض الرسول براؤں شریف بستی۔
السلام علیکم! مخدومنا! بے حد مشکور ہوں کہ جناب نے سنیوں کے مشہور مجلہ ’’استقامت‘‘ جنوری ۱۹۷۹ء میں اذان جمعہ اقامت اذان خطبہ جمعہ، تثویب اور دیگر مسائل پر سیر حاصل معلومات یکجا کر کے ہر عامی و خاصی کو اہم معلومات بہم پہنچا دیں۔ یہ مسائل ایسے تھے کہ جن پر فریق مخالف کا عمل دوسرے طریقے پر ہے‘ اور وہ اکثر ان موضوعات کو زیربحث لا کر عام آدمی کو الجھن میں ڈالتے ہیں۔ انہیں مباحث کو پیش نظر رکھتے ہوئے میری آنجناب سے گزارش ہے کہ جو رخ تشنہ رہ گیا ہے۔ یا جس پر فریق مخالف کو مسکت جواب دیا جا سکتا ہے۔ اس کے بارے میں مزید وضاحت اور صراحت اس ناچیز کو براہ راست اور عام قارئین کو بوساطت رسالہ استقامت عنایت فرما دیں تو بے حد ممنون احسان ہوں گا۔ اس تحریری جسارت کے لئے معافی کا خواستگار ہوں۔ والسلام
مطلوبہ صراحت برمسائل متفرقہ
اول(۱) اذان جمعہ و خطبہ اذان نماز پنجوقتہ کے لئے اندرون مسجد مکروہ ہے۔ اسی طرح نماز جمعہ (جس کا خاص شرائط کے ساتھ پڑھا جانا بدل ہے نماز ظہر کا) کی اذان بھی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب دو اذانیں شروع ہوئیں تو پہلی اذان جمعہ کے لئے اور دوسری اذان خطبہ کے لئے مقرر ہوئی۔ کیا خطبہ کی اذان بھی حضرت عثمان غنی کے زمانہ میں اور اس کے بعد کے زمانے میں مسجد کے دروازے ہی پر دی جاتی تھی؟ اگر نہیں تو کیا معمول تھا؟ یہ جو اذان خطبہ آج کل سنیوں کی مساجد میں صحن مسجد میں دی جاتی ہے (نہ کہ منبر کے سامنے اگلی صف میں) وہ بھی مسنون کب ہوئی۔ مسجد کے دروازے پر یا بیرون مسجد کیوں نہ دی جائے؟
دوم(۲) تثویب نور الایضاح میں تثویب کو جائز کہا ہے‘ اور ان الفاظ میں: الصلاۃ الصلاۃ یا مصلین اے نماز کے پڑھنے والو! نماز کے لئے آؤ جماعت تیار ہے۔ یہ اس وقت کی ایجاد ہے جب مسلمان سلاطین کے عاملین اذان سن کر فوراً نہیں حاضر ہو پاتے تھے‘ اور ان کو جماعت کی تیاری کی اطلاع جماعت کھڑی ہونے سے پہلے کی جاتی تھی۔ اب زمانۂ حال میں اس کا کیا جواز ہے خصوصاً صلوۃ و سلام کے ساتھ اور بالالتزام؟
سوم(۳) تکبیر کے وقت مقتدی اور امام کا اٹھنا: امام کے بارے میں تو مسئلہ صاف ہے‘ اور تمام حنفی کتب فقہ میں ہے کہ حی علی الصلٰوۃیا حی علی الفلاح پر نماز کے لئے کھڑا ہو اور یہ مستحب ہے نور الایضاح اور مالابدمنہ میں تو یہ بھی مستحب لکھا ہے کہ قد قامت الصلوٰۃ پر امام تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کر دے۔ اب مقتدیوں کے بارے میں یہ صراحت درکار ہے کہ جب حی علی الفلاح پر کھڑے ہوئے اور صفیں درست کرنا شروع کیا تو امام کی تکبیر اولیٰ ان کو کیسے ملے گی؟ یا امام نے نماز شروع کر دی اور مقتدی تکبیر کو دہراتے رہے (جو مستحب ہے) تو تکبیر اولیٰ ضرور فوت ہو گی جس کے پاتے ہی پر جماعت کا پورا ثواب ملنا لکھا ہے۔ ایک دیوبندی مفتی نے مندرجہ ذیل فتویٰ دیا ہے اس پر بھی بحث ضروری ہے‘ اور مسئلہ کی مزید صراحت بھی۔ فتویٰ: فقہ کی کتابوں میں ایسا یعنی حی علی الفلاح پر امام کا کھڑا ہونا اور قد قامت الصلوٰۃ پر نماز شروع کرنا) مستحب لکھا ہے دلیل قیاسی دی ہے کہ جب مؤذن نے نماز کے لئے پکارا تو کھڑا ہو جائے اور جب نماز کے قائم ہونے کی اطلاع دی تو نماز شروع کرے لیکن امام ابویوسف نے مسئلہ ثانی (شروع کرنے) میں اختلاف کیا ہے کہ بعد فراغت تکبیر نماز شروع کرے تاکہ امام بھی مؤذن کی تکبیر کا جواب دے سکے۔
احادیث سے مسائل بالا کی تائید نہیں ہوتی ہے بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صفوں کی درستگی کا آپ بہت اہتمام کرتے تھے کسی سے فرماتے آگے بڑھو اور کسی سے فرماتے پیچھے ہٹو پھر اس کے بعد نماز شروع فرماتے۔ پہلے سے اگر صفیں نہ درست کی جائیں عین موقعہ پر حی علی الصلٰوۃ پر ہی کھڑے ہوں تو مشاہدہ ہے کہ صفیں بہت ہی ٹیڑھی آگے پیچھے ہوتی ہیں۔ پس احادیث کی روشنی میں پہلے سے کھڑے ہو کر صفوں کا درست کرنا مطلوب معلوم ہوتا ہے۔ فقہاء میں سے علامہ طحطاوی نے صراحت کی ہے کہ اس سے قبل کھڑے ہونے کی مخالفت نہیں ہے۔ فقط
(دستخط مفتی) محمد ظہور ندوی
طالب علمانہ معروضات پیش ہیں۔ فروگذاشت کے لئے معافی کا خواستگار ہوں۔
محمد ادریس لکھنوی
۹۲؍
۷۸۶ عزیز گرامی زیدت محاسنکم۔ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ ثم السلام علیکم!
الجواب:بعون الملک العزیز الوھاب اول(۱) ایک اذان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں شروع ہوئی جو جمعہ کے وقت خطبہ کے لئے مقرر ہوئی اور حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہما کے پورے زمانۂ خلافت اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں جمعہ کے لئے وہی ایک اذان خطبہ کے وقت ہوتی رہی پھر جب لوگوں کی کثرت ہوئی تو خلیفہ سوم نے ایک دوسری اذان خطبہ سے پہلے زوراء بازار میں دلوانی شروع کی جیسا کہ مولانا عبدالحی صاحب فرنگی عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ میں لکھتے ہیں:
فی سنن ابی داؤد بسندہٖ عن السائب بن یزید ان الاذان کان اولہ حین یجلس الامام علی المنبر یوم الجمعۃ فی عھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر و عمر فلما کان خلافہ عثمان وکثر الناس امر بالاذان الثالث واذن بہ علی الزوراء فثبت الامر علی ذٰلک والمراد بالاذان الثالث ھو الاول وجعلہ ثالثا باطلاق الاذان علی الاقامۃ ایضاً والزوراء اسم سوق بالمدینۃ ا ھ۔
یعنی سنن ابوداؤد میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں جب امام جمعہ کے دن منبر پر بیٹھتا تو پہلی اذان ہوتی تھی پھر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا اور لوگوں کی کثرت ہوئی تو انہوں نے تیسری اذان کو شروع فرمایا جو زوراء میں دی جاتی تھی‘ اور تیسری اذان سے مراد جمعہ کی پہلی اذان ہے‘ اور روای نے اسے تیسری اذان اس لئے کہا کہ اقامت پر بھی اذان کا لفظ بولا جاتا ہے‘ او زوراء مدینہ طیبہ کے ایک بازار کا نام ہے۔ انتھیٰ‘ اور بیشک خطبہ کی اذان حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بلکہ اس سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانے سے مسجد کے دروازہ پر ہوا کرتی تھی‘ اور بعد میں بھی یہ معمول تھا لہٰذا اس اذان کا مسجد کے اندر ہونا خلاف سنت اور بدعت سیئہ ہے۔ رسول اکرم اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں خطبہ کی اذان کا مسجد کے اندر ہونا ایک بار بھی ہرگز ہرگز ثابت نہیں۔ جو لوگ اس امر کا دعویٰ کرتے ہیں وہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین پر افتراء کرتے ہیں۔ حدیث کی مشہور کتاب ابوداؤد شریف جلد اوّل ص ۱۶۲ میں ہے:
عن السائب بن یزید قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما۔
۔ یعنی حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابوبکرا ور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں۔ انتھیٰ‘ اور اسی حدیث شریف سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ جو لوگ بین یدیہ سے مسجد کے اندر ہونا سمجھتے ہیں وہ غلط ہے کہ حدیث میں بین یدیہ کے ساتھ علٰی باب المسجد بھی ہے جس سے معلوم ہوا کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے چہرے کے مقابل مسجد کے دروازہ پر خطبہ کی اذان ہوتی تھی نہ کی اندر‘ اور مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی عمدہ الرعایہ میں لکھتے ہیں:
قولہ بین یدیہ ای مستقبل الامام فی المسجد کان اوخارجہ والمسنون ھوالثانی۔
۔ یعنی بین یدیہ کے معنی یہ ہیں کہ امام کے روبرو ہو مسجد میں خواہ باہر اور سنت یہی ہے کہ مسجد کے باہر ہو۔ انتھیٰ۔
معلوم ہوا کہ خطبہ کی اذان کا باہر ہونا سنت ہے‘ اور جب باہر ہونا سنت ہے تو اندر ہونا خلاف سنت ہوا۔ لہٰذا عمدۃ الرعایہ کی اس عبارت کے یہ معنی ہرگز نہیں ہو سکتے کہ چاہے سنت کے مطابق کرو چاہے سنت کے خلاف دونوں باتوں کا اختیار ہے کہ کوئی عالم ایسا نہیں کہے گا‘ بلکہ معنی وہی ہیں کہ بین یدیہ سے یہ سمجھ لینا کہ مسجد کے اندر ہو غلط ہے اس کے معنی صرف اتنے ہیں کہ امام کے روبرو ہو۔ اندر کی تخصیص اس لفظ سے مفہوم نہیں ہوتی۔ لفظ دونوں صورتوں پر صادق ہے‘ اور سنت یہی ہے کہ اذان مسجد کے باہر ہو‘ تو ضروری ہوا کہ وہی معنی لئے جائیں جو سنت کے مطابق ہوں۔ بہرحال ان کے کلام میں بھی اتنی تصریح ہے کہ خطبہ کی اذان مسجد کے باہر ہونا سنت ہے تو بلاشبہ مسجد کے اندر ہونا خلاف سنت اور بدعت سیئہ ہوا‘ اور کچھ لوگ مسجد کے اندر اذان دلوانے کی نسبت ہشام بن عبدالملک کی طرف کرتے ہیں مگر ہشام سے بھی اس اذان کا مسجد کے اندر دلواناثابت نہیں۔ البتہ پہلی اذان کی نسبت بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ اسے ہشام نے مسجد کی طرف منتقل کیا۔ رہی خطبہ کی اذان تو اس کے بارے میں تصریح ہے کہ ہشام نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی بلکہ اسی حالت پر باقی رہا جیسا کہ زمانۂ رسالت و زمانۂ خلافت میں تھی جیسا کہ امام محمد بن عبدالباقی زرقانی شرح مواہب جلد ہفتم مطبوعہ مصر ۴۳۵ میں تحریر فرماتے ہیں:
لما کان عثمان امر بالا ذان قبلہ علی الزوراء ثم ہشام الی المسجد ای امر بفعلہ فیہ وجعل آخر الذی بعد جلوس الخطیب علی المنبربین یدیہ بمعنی انہ ابقاہ بالمکان الذی یفعل فیہ فلم یغیرہ بخلاف ماکان بالزوراء فحولہ الی المسجد علی المنار۔
یعنی جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو خطبہ کی اذان سے پہلے ایک اذان زوراء بازار میں مکان کی چھت پر دلوائی پھر اس پہلی اذان کو ہشام مسجد کی طرف منتقل کر لایا اس کے مسجد میں ہونے کا حکم دیا اور دوسری اذان جو کہ خطیب کے منبر پر بیٹھنے کے وقت ہوتی ہے وہ خطیب کے سامنے کی یعنی جہاں ہوا کرتی تھی وہیں باقی رکھی۔ اس اذان ثانی میں ہشام نے کوئی تبدیلی نہ کی بخلاف بازار والی اذان اوّل کے کہ اس کو مسجد کی طرف منارہ پر لے آیا۔ انتھیٰ‘ اور اگر ہشام سے اس اذان کا مسجد کے اندر دلوانا ثابت بھی ہو جائے تو اس کا قول و فعل حجت نہیں کہ وہ ایک مروانی ظالم بادشاہ ہے جس نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پوتے امام زین العابدین کے صاحبزادے یعنی حضرت امام باقر کے بھائی حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم کو شہید کرایا سولی دلوائی اور اس پر یہ شدید ظلم کہ نعش مبارک کو نہیں دفن ہونے دیا برسوں سولی پر لٹکتی رہی جب ہشام مر گیا تو نعش مبارک دفن ہوئی۔
ایسے ظالم بادشاہ کی سنت کو قبول کر لینا اور رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سنت کو چھوڑ دینا صریح ظلم ہے‘ اور جو خطبہ کی اذان صحن مسجد میں دیتے ہیں وہ بھی خلاف سنت ہے کہ صحن داخل مسجد ہے۔ ہاں اگر وہ جگہ پہلے خارج مسجد تھی پھر مسجد بڑھائی گئی توپہلے جو جگہ اذان کے لئے مقرر تھی وہاں خطبہ کی اذان دینے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ جگہ بدستور مستثنیٰ رہے گی۔ جیسے کہ مکہ معظمہ میں اذان کنارۂ مطاف پر ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں مسجد حرام ہی تک تھی لہٰذا اگر مسجد بڑھانے کے سبب کنواں اندر ہو گیا تو اس کا بند کرنا ضروری نہیں۔ جیسے کہ آب زم زم کا کنواں۔ حالانکہ مسجد کے اندر کنواں بنانا جائز نہیں۔
فتاویٰ قاضی خان اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
یکرہ المضمضۃ والوضوء فی المسجد الاان یکون ثمہ موضع اعدلذٰلک ولایصلی فیہ اور فرمایا: لایحفر فی المسجد بئرماء ولوقدیمۃ تترک کبئرز مزم انتھٰی۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسجد کے اندر اذان پڑھنا خلاف سنت اور بدعت سیئہ ہے خواہ عام اذان ہو یا خطبہ کی اذان۔ اسی لئے فقہائے کرام نے مطلق اذان کو مسجد میں مکروہ و ممنوع فرمایا اور کسی نے اذانِ خطبہ کا استثناء نہ کیا۔ یہاں تک کہ امام ابن ہمام نے فتح القدیر خاص باب جمعہ میں داخل مسجد اذان کو مکروہ فرمایا‘ مگر مخالفین اس لئے نہیں مانتے کہ اس سنت کو امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان نے زندہ فرمایا۔ خداتعالیٰ مسلمانوں کو ہٹ دھرمی سے بچائے اور سنت کریمہ پر عمل کرنے اور بدعت سیئہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ حبیبہ سیّد المرسلین صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین۔
دوم(۲) نور الایضاح میں تثویب کے جواز کو ’’الصلاۃ الصلاۃ یامصلین‘‘ کے ساتھ خاص نہیں فرمایا اس لئے کہ وہ اعلام بعد الاعلام ہے‘ اور اس کے لئے کوئی صیغہ معین نہیں بلکہ جو اصطلاح چاہیں مقرر کرلیں جائز ہے جیسا کہ اس عبارت کقولہ بعد الاذان الصلٰوۃ الاصلاۃ یا مصلین سے ظاہر ہے‘ اور ردالمحتار میں ہے:
بما تعارفوہ کتنحنح اوقامت قامت اوالصلاۃ الصلاۃ ولواحد ثوا اعلاما مخالفا لذالک جازنھر عن المجتبٰی
اور فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
التثویب حسن عند المتاخرین فی کل صلاۃ الافی المغرب ھٰکذا فی شرح التقایہ للشیخ ابی المکارم۔ وھو رجوع المؤذن الی الاعلام بالصلاۃ بین الاذان والا قامۃ وتثویب کل بلد علی ماتعارفوہ اما بالتنحنح اوبالصلاۃ اوقامت قامت لانہ للمبالغۃ فی الالعام وانما یحصل ذٰلک بما تعارفوہ کذا فی الکافی
اور عنایہ شرح ہدایہ میں ہے:
احدث المتاخرون التثویب بین الاذان والاقامۃ علی حسب ماتعارفوہ فی جمیع الصلوات سوی المغرب مع ابقاء الاول ما راہ المومنون حسنا فھو عنداللّٰہ تعالٰی حسن ا ھ۔
فقہائے کرام کی ان تصریحات سے صاف ظاہر ہے کہ تثویب کے لئے کوئی صیغہ خاص نہیں ہے‘ بلکہ جو صیغہ بھی متعارف ہو اس سے تثویب جائز ہے‘ اور صلاۃ و سلام کے ساتھ بالالتزام اس لئے تثویب ہوتی ہے کہ آج کل اسلامی شہروں میں صلاۃ و سلام کا صیغہ تثویب کے لئے متعارف ہے جو ۷۸۱ھ کی بہترین ایجاد ہے درمختار میں ہے:
التسلیم بعد الاذان حدث فی ربیع الاخرسنۃ سبع مائۃ واحدیٰ وثمانین وھو بد عۃ حسنۃ ا ھ ملخصًا۔
یعنی اذان کے بعد الصلاۃ والسلام علیک یارسول اللّٰہ پڑھنا ماہ ربیع الآخر ۷۸۱ ھ میں جاری ہوا اور یہ بہترین ایجاد ہے انتھیٰ۔ لیکن چونکہ تثویب کے ان الفاظ کے ساتھ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے اس لئے بعض لوگ تثویب کی مخالفت کرتے ہیں‘ اور زمانۂ حال میں بھی تثویب کے جائز اور مستحق ہونے کی وجہ ہی ہے جو پہلے تھی یعنی امور دینیہ میں لوگوں کی سستی و کاہلی جیسا کہ نور الایضاح کی شرح مراقی الفلاح میں ہے:
: ویثوب بعد الاذان فی جمیع الاقات لظھور التوانی فی الامور الدینیہ ا ھ۔
۔ اور مولانا عبدالحئی صاحب فرنگی محلی عمدۃ الرعایہ میں لکھتے ہیں:
: ان التثویب مستحسن فی جمیع الصلوات لجمیع الناس لظھور التکاسل فی امور الدین لاسیما فی الصلاۃ ویستثنیٰ منہ المغرب ا ھ۔
یعنی مغرب کے علاوہ ہر نماز میں سب لوگوں کے لئے علمائے متاخرین نے تثویب کو مستحسن قرار دیا ہے اس لئے کہ لوگ دینی امور خاص کر نماز میں سستی برتنے لگے ہیں انتھیٰ۔ صاف تصریح ہے کہ نماز مغرب کے علاوہ ہر نماز میں بالالتزام اور بلاتخصیص سب کے لئے تثویب مستحسن ہے۔ واللّٰہ تعالٰی ورسولہُ الاعلی اعلم۔
سوم(۳) قدقامت الصلاۃ پر امام تکبیر تحریمہ کہہ کر شروع کر دے یہ طرفین کے نزدیک مستحسب ہے‘ اور اقامت کے وقت حی علی الصلاۃ سے پہلے کھڑا رہنا مکروہ ہے جیسا کہ مضمرات پھر فتاویٰ عالمگیری، ردالمختار، عمدۃ الرعایہ اور طحطاوی علی مراقی میں تصریح ہے تو اگر مقتدی اس کراہت سے بچ کر تکبیر اولیٰ نہ پا سکے تو امام تکبیر اولیٰ کو موخر کرے جو بالاتفاق بلاکراہت جائز ہے۔ بحر الرائق میں ہے:
فی الظھیریۃ ولوا خرحتی یفرغ المؤذن من الاقامۃ لاباس بہ فی قولھم جمیعا ا ھ۔
۔اور درمختار میں ہے: لواخرحتی اتمھا لاباس بہ اجماعاً ا ھ۔ اور مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے: لواخرہ حتی یفرغ من الاقامۃ لاباس بہ فی قولھم جمیعا ا ھ۔ اور امام کے تکبیر اولیٰ ‘ختم اقامت کے بعد کہنے میں تین فائدے ہیں: اوّل یہ کہ امام اور مقتدی دونوں مؤذن کی مکمل اقامت کا جواب دے سکیں گے جو مستحب ہے، دسرے یہ کہ مؤذن اقامت سے فارغ ہو کر تکبیر اولیٰ پا سکے گا جو کم ازکم مستحب ضروری ہے‘ اور تیسرے یہ کہ مقتدی کراہت سے بچ کر صفیں سیدھی کر لیں گے جن کی حدیث شریف میں تاکید ہے‘ تو صرف امام کے ایک مستحب پر عمل کرنے سے خود امام اور تمام مقتدیوں کا ایک دوسرے مستحب کا ترک لازم آتا ہے کہ ان میں سے کوئی اقامت کا جواب مکمل نہ دے سکے گا اور مؤذن تکبیر اولیٰ نہ پاسکے گا اور سب مقتدیوں کو صفیں درست کرنے کے لئے حی علی الصلاۃ سے پہلے کھڑے ہو کر کراہت کا مرتکب ہونا پڑے گا تو مستحب کے لئے کراہت کے ارتکاب کا حکم نہ کیا جائے گا بلکہ اس صورت میں مستحب کو چھوڑ دیا جائے گا۔ جیسا کہ امام ابن ہمام فتح القدیر باب المواقیت میں تحریر فرماتے ہیں:
اذا لزم من تحصیل المندوب ارتکاب مکروہ ترک‘
اور جبکہ ارتکاب کراہت کے ساتھ دوسرے مستحب کا ترک بھی لازم آتا ہو تو بدرجۂ اولیٰ مستحب پر عمل کا حکم نہ کیا جائے گا۔ اسی لئے جمہور اور اہل حرمین کا عمل حضرت امام ابویوسف کے قول پر ہے جیسا کہ شرح نقایہ ص ۶۳ میں ہے:
والجمھور علی قول ابی یوسف لیدرک المؤذن اوّل صلاۃ الامام وعلیہ عمل اھل الحرمین ا ھ۔
اور مفتی محمد ظہور صاحب ندوی نے اپنے فتویٰ میں جو یہ لکھا کہ ’’احادیث سے مسائل بالا کی تائید نہیں ہوتی‘‘ پھر یہ بتایا کہ احادیث کی روشنی میں پہلے سے کھڑے ہو کر صفوں کا درست کرنا مطلوب معلوم ہوتا ہے‘ تو اس کا مطلب یہ ہو اکہ تمام علمائے مقتدمین و متاخرین حتیٰ کہ ائمہ ثلاثہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام ابویوسف اور محرر مذہب حنفی حضرت امام محمد رضی اللہ عنہم جو امام و مقتدی کو حی علی الصلاۃ پر اٹھنے کا حکم دیتے ہیں یہ سب احادیث کریمہ کے خلاف حکم دیتے ہیں۔ یاتو اس لئے کہ یہ لوگ حدیث پر اپنی عقل کو ترجیح دیتے ہیں اور یا تو اس لئے کہ ان ائمہ کرام نے احادیث کو نہیں سمجھا‘ اور یہ دونوں باطل ہیں کہ امام اعظم نے خود فرمایا: اذا صح الحدیث فھومذھبی اور احادیث کریمہ کے مفہوم کو جتنا ائمہ کرام نے سمجھا کسی نے نہیں سمجھا صرف عربی دانی کی بنیاد پر ان ائمہ کرام کے مقابل اگر کوئی حدیث فہمی اور تفقہ کا دعویٰ کرے تو غلط ہے کہ عربی زبان ہر شخص حاصل کر سکتا ہے مگر تفقہ صرف انہیں لوگوں کے نصیب میں ہے کہ جن کے ساتھ خداعزوجل بھلائی کا ارادہ فرمائے: لقولہ علیہ السلام من یرد اللّٰہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین (الحدیث) پھر مفتی ظہور صاحب ندوی نے احادیث سے مسائل بالا کی تائید نہ ہونے کی دلیل یہ دی ہے: ’’احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صفوں کی درستگی کا آپ بہت اہتمام کرتے تھے کسی سے فرماتے آگے بڑھو کسی سے فرماتے پیچھے ہٹو پھر اس کے بعد نماز شروع فرماتے‘‘ بیشک حضور صلی اللہ علیہ وسلم صفوں کی درستگی کا بڑا اہتمام فرماتے پھر اس کے بعد نماز شروع فرماتے‘ مگر اس سے شروع اقامت میں امام و مقتدی کا کھڑا ہو جانا ثابت نہیں ہوتا کہ حدیث شریف سے بعد اقامت بھی صفوں کی درستگی کا اہتمام ثابت ہے جیسا کہ امام مسلم حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ حضور نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور قریب تھا کہ تکبیر تحریمہ کہتے کہ آپ نے ایک شخص کو دیکھا جس کا سینہ صف سے باہر نکلا ہوا تھا تو حضور نے فرمایا: خدا کے بندو! اپنی صفوں کو برابر کرو۔ حدیث شریف کے اصل الفاظ یہ ہیں: خرج یوما فقام حتی کادان یکبر فرای رجلا بادیا صدرہ من الصف فقال عباداللہ تسون صفوفکم (مشکوٰۃ ص ۹۷) اور حضرت عمر فاروق اعظم و حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ یہ حضرات بھی ختم اقامت کے باوجود تکبیر تحریمہ نہ کہتے بلکہ جب صفوں کی درستگی کی خبر ملتی تو نماز شروع فرماتے حدیث شریف کے اصل الفاظ یہ ہیں:
عن ابن عمران عمر بن الخطاب کان یامر رجلا بستویۃ الصفوف فاذا جاء وہ فاخبروہ بستویتھا کبر بعد۔ وعن مالک بن ابی عامر الانصاری ان عثمان بن عفان لایکبر حتی تاتیہ رجال قدوکلھم بستویۃ الصفوف فیخبرونہ ان قد استوت فیکبر (موطا امام محمد ص ۸۸)
لہٰذا اسی پر عمل کرنے کا حکم کیا جائے گا کہ حی علی الصلٰوۃ پر اٹھنے کے بعد اگر مؤذن کے قد قامت الصلاۃ پڑھنے تک صفیں درست نہ ہو سکیں تو اگرچہ اقامت ختم ہو جائے تاوقتیکہ صفوں کی درستگی نہ ہو جائے نماز شروع نہ کی جائے اس لئے کہ قد قامت الصلاۃ پر نماز کے شروع کر دینے کے حکم مستحب پر عمل کرنے کے لئے جو جمہور کے خلاف بھی ہے مقتدیوں کو حی علی الصلاۃ سے پہلے کھڑے ہونے کا حکم دے کر فعل مکروہ میں نہیں مبتلا کیا جائے گا اور نہ صفوں کی درستگی کا اہتمام ترک کیا جاے گا۔ یعنی حی علی الصلاۃ پر کھڑے ہو کر صفوں کی درستگی کے بعد امام نماز شروع کرے گا خواہ قد قامت الصلاۃ پر صفیں درست ہوں یا اس کے بعد۔احادیث کریمہ اور خلفائے راشدین کے عمل سے اسی کی تائید ہوتی ہے۔ اسی لئے حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ موطا امام محمد میں تسویۃ الصف کی حدیثیں نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں:
ینبغی للقوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح ان یقوموا الی الصلاۃ فیصفوا ویسووا الصفوف۔
عنی اقامت کہنے والا جب حی علی الفلاح پر پہنچے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ نماز کے لئے کھڑے ہوں پھرصف بندی کریں اور صفوں کو سیدھی کریں۔ انتھیٰ۔ خلاصہ یہ کہ حی علی الصلاۃ سے پہلے کھڑا ہونا حدیث سے ثابت نہیں اسی لئے مفتی صاحب کمزور لفظوں کے ساتھ آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’پس احادیث کی روشنی میں پہلے سے کھڑے ہو کر صفوں کا درست کرنا مطلوب معلوم ہوتا ہے‘ اور پھر اخیرمیں جو یہ لکھا کہ فقہاء میں سے علامہ طحطاوی نے صراحت کی ہے کہ اس سے قبل کھڑے ہونے کی ممانعت نہیں ہے‘ تو مفتی مذکور کا یہ لکھنا صحیح نہیں اس لئے کہ علامہ طحطاوی نے حی علی الصلاۃ سے پہلے کھڑے ہونے کو مکروہ لکھا ہے‘ اور ممانعت بھی کی ہے‘‘ جیسا کہ طحطاوی علی مراقی ص ۱۵۱ میں ہے
: اذا اخذ المؤذن فی الاقامۃ ودخل رجل المسجد فانہ یقعد ولا ینتظر قائما فانہ مکروہ کما فی المضمرات قھستانی ویفھم منہ کراھۃ القیام ابتداء الاقامۃ والناس عنہ غافلون۔ ھٰذا ماعندی والعلم بالحق عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہٗ جل جلالہ وصلی المولیٰ علیہ وسلم۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۱۱؍ ربیع الاول ۱۳۹۹ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۰۳/۲۰۲/۲۰۱/۲۰۰/۱۹۹/۱۹۸/۱۹۷/۱۹۶/۱۹۵/۱۹۴)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند