روح کا منکر کیسا ہے؟
نفخۂ اولی اور نفخۂ ثانیہ کے درمیان جو چالیس سال کی مدت ہو گی کیا اسے بھی قیامت کہیں گے؟
اسے قیامت نہ ماننے والے کے لئے کیا حکم ہے؟
مسئلہ:
از عبدالرزاق موضع کسوار پوسٹ دلدلہ ضلع بستی (یو-پی)
پہلا(۱) روح کا منکر کیسا ہے؟
دوسرا(۲) نفخۂ اولی اور نفخۂ ثانیہ کے درمیان جو چالیس سال کی مدت ہو گی کیا اسے بھی قیامت کہیں گے؟
اور اگر کہتے ہیں تو اس چالیس سالہ مدت کو قیامت کا دن نہ ماننے والا ازروئے شرع کیسا ہے؟
الجواب: اللھم ھٰذا یۃ الحق والصواب۔
روح کہ جس سے انسان زندہ رہتا ہے اس کا منکر گمراہ و بدمذہب ہے۔
قال اللّٰہ تعالٰی:
قل الروح من امر ربی۔
وھو تعالٰی اعلم۔
جواب(۲) لفظ قیامت مصدر ہے جس کے لغوی معنی کھڑے ہونے کے ہیں اور چونکہ محشر کے دن مردے زندہ ہو کر کھڑے ہوں گے اس لئے اسے قیامت کا دن کہتے ہیں۔ غیاث اللغات میں ہے:
قیامت بکسر اوّل مصدرست بمعنی قائم شدہ و قیامت معروف را قیامت بہمیں سبب گویند کہ دراں وقت مردگاں زندہ شدہ قیام خواہند کرد‘ اور چونکہ قیامت بمعنی مصیبت بھی مستعمل ہے اس لئے نفخۂ اولیٰ کو بھی قیامت کہتے ہیں۔
بہار شریعت حصہ اوّل ص ۳۴ میں ہے:
’’جب قیام قیامت کو صرف چالیس برس رہ جائیں گے ایک خوشبودار ٹھنڈی ہوا چلے گی جو لوگوں کے بغلوں کے نیچے سے گزرے گی جس کا اثر یہ ہو گا کہ مسلمان کی روح قبض ہو جائے گی اور کافر ہی کافر رہ جائیں گے‘ اور انہیں پرقیامت قائم ہو گی‘‘۔
اور اسی کتاب کے اسی حصہ ص ۲۸ پر ہے:
’’جسم اگرچہ گل جائے‘ جل جائے‘ خاک ہو جائے مگر اس کے اجزائے اصلیہ قیامت تک باقی رہیں گے وہ مورد ثواب ہوں گے اور انہیں پر روز قیامت دوبارہ ترکیب جسم فرمائی جائے گی‘‘ معلوم ہوا کہ نفخۂ اولیٰ اور نفخۂ ثانیہ اور ان دونوں کے درمیان سب قیامت ہے۔ درمیانی مدت کو قیامت نہ ماننے والا جاہل ہے۔
وھو تعالٰی اعلم بالصواب۔
کتبہ:
جلال الدین احمد الامجدی
۶ ربیع الآخر ۱۴۰۱ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۴۲/۴۱)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند