زبردستی کی طلاق میں کس صورت میں طلاق واقع ہوگی اور کس صورت میں نہیں
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان عظام ازروئے شرع کہ زید نے ہندہ کے ساتھ کورٹ میرج اور نکاح بھی کیا زید و ہندہ دونوں بالغ ہیں جب اس کی خبر ہندہ کے گھر والوں کو ملی تو طرح طرح کی دھمکی دیکر زید سے زبردستی طلاق دلوایا کیا یہ طلاق واقع ہوگی یا نہیں اگر ہوگی تو کیوں ۔ جبکہ طلاق نامہ جب لکھا جاتا ہے تو اس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ میں ہوش وحواس اور بغیر کسی دباؤ کے طلاق دیتا ہوں ۔ اور یہاں دباؤ میں طلاق لیا گیا ۔ اس کی عقدہ کشائی فرمائیں مہربانی ہوگی ۔ مستفتی رضوان احمد نوری مصباحی . کھنڈوہ ۔ ایم ۔پی
۔۔۔۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
حالت اکراہ یعنی زبردستی و مجبوری کی حالت میں بھی طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے
چنانچہ امام ابوالحسین احمد قدوری حنفی متوفی ۴۲۸ھ فرماتے ہیں
” وطَلَاقُ المُكْرَہ وَالسَّكْرَانِ واقِع “
(مختصر القدوری ، کتاب الطلاق ، ص۳۶۶ ، مطبوعہ مؤسسۃالریان بیروت ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۶ھ)
یعنی ، مجبور اور نشہ والے کی طلاق واقع ہے
اور یہ بھی درست ہے تحریر کا حکم وہی ہے جو تلفظ کا ہے یعنی جس طرح طلاق بولنے سے واقع ہوتی ہے اسی طرح لکھنے سے بھی واقع ہو جاتی ہے
چنانچہ علامہ نظام الدین برہانپوری حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ و جماعت علمائے ہند فرماتے ہیں
” الکتاب کالخطاب”
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الاکراہ ، الباب الاول ، ۵/۳۵ ، المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ بولاق مصر ، الطبعۃ الثانیۃ:۱۳۱۰ھ)
یعنی ، تحریر بولنے کی طرح ہی ہے
اور امام فقیہ النفس قاضی خان اوزجندی حنفی متوفی ۵۹۲ھ فرماتے ہیں
” فإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو “
(فتاوی قاضی خان ، کتاب الطلاق ، فصل فی الطلاق بالکتابۃ ، ۱/۴۱۵ ، دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۲۰۰۹ء)
یعنی ، اگر تحریر مرسوم ہو تو طلاق واقع ہو جائے گی چاہے نیت کرے یا نہ کرے
لیکن یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اکراہ کی دو قسمیں ہیں ، اکراہ ملجی اور اکراہ غیرملجی ، جس اکراہ میں ایسی دھمکی ہو جس میں جان جانے یا عضو تلف ہونے کا اندیشہ صحیح ہو وہ اکراہ ملجی ہے ، اور جس میں محض بند کردینے یا قید کردینے کا اندیشہ ہو وہ اکراہ غیر ملجی ہے
چنانچہ علامہ نظام الدین برہانپوری حنفی فرماتے ہیں
” وأما أنواعه فالإكراه في أصله على نوعين إما إن كان ملجئا أو غير ملجئ فالإكراه الملجئ هو الإكراه بوعيد تلف النفس أو بوعيد تلف الأعضاء والإكراه الذي هو غير ملجئ هو الإكراه بالحبس والتقييد “
(الفتاوی الھندیۃ ، کتاب الاکراہ ، ۵/۳۵)
یعنی ، اکراہ کی دو قسمیں ہیں ، ملجی اور غیر ملجی ، جو اکراہ تلف جان یا تلف عضو کی وعید کے ساتھ ہو وہ اکراہ ملجی ہے ، اور جو بند کردینے یا قید کردینے کی وعید کے ساتھ ہو وہ غیر ملجی ہے
زبردستی طلاق لکھوانے کے باب میں اگر اکراہ ملجی ہو تو محض لکھنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی جب تک کہ زبان سے نہ بولے ،
چنانچہ امام قاضی خان فرماتے ہیں
” رجل أكره بالضرب والحبس على أن يكتب طلاق امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان فكتب امرأته فلانة بنت فلان ابن فلان طالق لا تطلق امرأته لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة ههنا “
(فتاوی قاضی خان ، کتاب الطلاق ، فصل فی الطلاق بالکتابۃ ، ۱/۴۱۶ )
یعنی ، کسی آدمی کو مار کر اور قید کرکے بیوی کو طلاق لکھنے پر مجبور کیا گیا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ کتابت عبارت کی قائم مقام حاجت کے اعتبار سے ہے اور یہاں حاجت نہیں
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں
” أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، على أثرة على ان يكتب طلاق امراتہ فكتب لا تطلق “
(ردالمحتار ، کتاب الطلاق ، قبیل مطلب: فی المسائل التی تصح مع الاکراہ ، ۹/۱۱۸ ، تحقیق: صالح فرفور ، دارالثقافۃ والتراث ، الطبعۃ الاولی: ۱۴۲۱ھ)
یعنی ، مراد تلفظ طلاق پر مجبور کرنا ہے ، لہذا کسی کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق لکھے ، اس نے لکھ دیا تو طلاق واقع نہیں ہوگی ،
ان روشن تصریحات سے معلوم ہوا کہ اگر اکراہ ملجئہ کی صورت ہو تو چاہے طلاق کے کاغذات میں کچھ بھی لکھا ہوا ہو صرف دستخط کردینے سے یا طلاق کے الفاظ لکھ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی جب تک کہ زبان سے طلاق کا تلفظ نہ کرے ، اور اگر اکراہ غیر ملجئہ ہے تو لکھ دینے سے یا کاغذات پر دستخط کردینے سے بھی طلاق واقع ہوجائےگی بشرطیکہ شوہر کسی طور پر کاغذات میں موجود طلاق کے مضمون سے واقف ہو
صورت مسئولہ میں اگر اکراہ ملجئہ پائی جارہی ہے تو چاہے بغیر دباؤ اور ہوش وحواس میں رہنے کی بات لکھی ہو یا نہ لکھی ہو عدم تلفظ کی شرط کے ساتھ صرف دستخط کردینے یا طلاق لکھ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی ، اور اگر اکراہ ملجئہ کی صورت نہیں ہے تو بہرحال طلاق واقع ہوگی چاہے ہوش وحواس اور بغیر دباؤ کی قید کے ساتھ مقید نہ ہو ،
یہاں یہ بھی خیال رہے جہاں کہیں حالت مجبوری میں صرف لکھنے سے طلاق واقع نہ ہونے کا حکم ہے اس مجبوری سے مراد شرعی مجبوری ہے یعنی اکراہ ملجئہ ، عوام کسی کے اصرار کرنے کو بھی مجبوری سمجھ لیتے ہیں ، یہاں یہ مراد نہیں ، اس قسم کی مجبوری وقوع طلاق کیلئے مانع نہیں چاہے لفظی ہو یا تحریری
چنانچہ صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ فرماتے ہیں
” مجبوری سے مراد شرعی مجبوری ہے محض کسی کے اصرار کرنے پر لکھ دینا یا بڑا ہے اُس کی بات کیسے ٹالی جائے، یہ مجبوری نہیں “
(بہار شریعت ، کتاب الطلاق ، قبیل بیان الصریح ، ۲/۱۱۵ ، مکتبۃ المدینۃ کراتشی)
سوال میں چونکہ اس زبردستی اور دھمکی کی کوئی تفصیل لکھی ہوئی نہیں ہے لہذا حکم مسئلہ اخذ کرنے میں دیانتداری شرط ہے تاکہ غلط استعمال نہ ہو
ھذا ما ظھر لی والعلم الحقیقی عند ربی
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ ۔۔۔
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
۲۹/ ربیع الاوّل ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۵/ اکتوبر ۲۰۲۳ء
الجواب صحیح والمجیب نجیح عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب نجیح
محمد شرف الدین رضوی غفرلہ ، شیخ الحدیث دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ الھند
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز
لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
الجواب الصحیح فقط جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ ، المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
النفتی محمد سجاد عثمان النعیمی غفرلہ
الجواب صحیح والمجیب نجیح
ملک محمد کاشف مشتاق النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
النفتی محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ