عورت اگر بیمار ہوجائے تو اس کے علاج و معالجہ کی ذمہ داری کس پر ہے ؟
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
میں نے ایک میسیج میں پڑھا تھا کہ اگر بیوی بیمار پڑجائے تو اس کا علاج کرانا شوہر کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس کے باپ کی ذمہ داری ہے ، اگر شوہر کر رہا ہے تو اس کا حسن سلوک ہے ، شرعاً اس پر لازم نہیں ہے ،
اس معاملہ میں حکم شرع کیا ہے ؟ عورت کا علاج کرانا شرعا شوہر کے ذمہ ہے یا عورت کے باپ کے ذمہ ؟
دلائل کے ساتھ شرعی رہنمائی فرمائیں
سائل ۔۔۔ سید مسرور حسینی ، حیدرآباد
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
ہاں ! مسئلہ یہی ہے کہ عورت اگر بیمار ہوجائے تو شوہر پر اس کا علاج و دوا شرعاً واجب نہیں ہے
چنانچہ امام ابوبکر بن علی حداد حنفی متوفی ۸۰۰ھ فرماتے ہیں
ولایجب علیہ الدواء للمرض ولا اجرۃ الطبیب ولا الفصد ولا الحجامۃ “*
(السراج الوھاج ، کتاب الطلاق ، باب النفقات ، ص۳۷۷ ، مخطوطہ: ۱۶۲۱)*
یعنی ، شوہر پر عورت کے مرض کیلئے دوا ، طبیب ، فصد اور حجامہ کی اجرت واجب نہیں ہے
اور امام ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی ۵۹۳ھ اس کی علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں
وجه الظاهر أن الحاجة إلى النفقة معلومة الوقوع ، وإلى الدواء بعارض المرض ، ولهذا كانت نفقة المرأة على الزوج، ودواءها في مالها “*
(ھدایہ ، کتاب المضاربۃ ، باب المضارب يضارب ، ۶/۲۰۱ ، ادارۃ القرآن کراتشی ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۷ھ)*
یعنی ، ظاہر الروایہ قول کی وجہ یہ ہے کہ نفقہ کی ضرورت واقع ہونا معلوم ہے جبکہ اور دوا کی ضرورت مرض طاری ہونے کی بنا پر پیش آتی ہے ، اسلئے عورت کا نفقہ شوہر پر ہے اور اس کی دوا اس کے مال سے
لیکن اخلاقاً ، عرفا اور دیانۃ کھانا ، کپڑا اور مکان کے ساتھ ساتھ بیوی کا علاج و معالجہ بھی کئی وجوہ سے شوہر ہی کی ذمہ داری بنتی ہے
اولاً: اسلئے کہ شرعاً نفقہ وہ چیزیں ہیں جن پر کسی شئے کی بقا موقوف ہو
چنانچہ امام عبد الرحمن بن محمد کلیبولی المعروف بداماد آفندی حنفی متوفی ۱۰۷۸ھ فرماتے ہیں
وشريعة ما يتوقف عليه بقاء شيء من نحو مأكول وملبوس، وسكنى “*
(مجمع الانہر ، کتاب الطلاق ، باب النفقۃ ، ۲/۱۷۳ ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۱۹ھ)*
یعنی ، شریعت میں نفقہ اس چیز کو کہتے ہیں جس پر کسی چیز کی بقا موقوف ہو جیسے کہ کھانا ، لباس اور رہائش
اور فی زمانہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نت نئی بیماریوں کے اس دور میں کھانا ، لباس کی طرح دوا و علاج کی بھی بڑی اہمیت ہوگئی ہے ، لہذا جب کھانا ، لباس نفقہ میں شامل ہے تو دوا و علاج بھی اسی کی ذمہ داری ہونی چاہئے
ثانیاً: اسلئے کہ عورت پر بھی شوہر کے والدین کی خدمت، گھر کا کھانا پکانا، صفائی، کپڑے دھونا وغیرہ شرعاً واجب نہیں ہے مگر عرفا و اخلاقاً اس کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے اور وہ ان کاموں کو انجام بھی دیتی ہے تو شوہر کی بھی اخلاقی و عرفی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے علاج معالجہ کا خرچہ اور ڈاکٹر یا اسپتال لانے اور لے جانے کی ذمہ داری مکمل خوش دلی و خوش اسلوبی سے نبھائے
ثالثاً: شریعت کے بہت سے احکام کا مدار عرف عام پر بھی ہوتا ہے ، اور عرف کی وجہ سے حکم شرع بدل جاتا ہے
چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ فرماتے ہیں
ان اعتبار العادة والعرف رجع اليه في مسائل كثيرة حتى جعلوا ذلك اصلا فقالوا فى الاصول فى باب ما تترك به الحقيقة تترك الحقيقة بدلالة الاستعمال والعادة هكذا ذكر فخر الاسلام انتهى كلام الاشباه ؛ وفي شرح الاشباه للبيري قال في المشرع الثابت بالعرف ثابت بدليل شرعى وفى المبسوط الثابت بالعرف كالثابت بالنص “*
(رسائل ابن عابدین ، الرسالۃ : نشرالعرف فی بناء بعض الاحکام علی العرف ، ۲/۱۱۵ )*
یعنی ، عرف وعادت کا اعتبار اس حد تک ہے کہ یہ بہت سے مسائل شرعیہ کا مرجع ہے یہاں تک کہ فقہا نے اس کو ایک دلیل شرعی قرار دیا، چنانچہ اصول فقہ کے ”باب ما تترك به الحقيقة “ میں کہا ہے کہ دلالت استعمال و عادت کی بنا پر حقیقی معنی متروک ہو جائے گا۔ اس طرح امام فخر الاسلام بزدوگی نے بیان کیا۔ (اشباہ کی عبارت تام ہوئی۔ ) علامہ بیری کی شرح الاشباہ میں یہ مذکور ہے کہ جو حکم شرع عرف سے ثابت ہو وہ گویا دلیل شرعی سے ہی ثابت ہے۔ اور مبسوط میں یوں ہے کہ جو حکم عرف سے ثابت ہو وہ گویا نص سے ثابت ہے
اسی لئے علامہ شہاب الدین احمد شلبی حنفی متوفی ۱۰۲۱ھ فرماتے ہیں
وأما الدواء والحجامة ونحوذ لك فليس له ذلك لان النفقة للطعام والكسوة ألا ترى أن القاضي يقضى بنفقة الزوجة بالطعام والكسوة ولا يقضى بالدواء والحجامة كذلك هذا الا أن يكون في موضع جرت العادة فيه بذلك “*
(حاشیۃ الشلبی علی تبیین الحقائق ، کتاب المضاربۃ ، باب المضارب یضارب ، ۵/۷۱ ، مکتبہ امدادیہ ملتان)*
یعنی ، دوا اور حجامہ وغیرہ شوہر کے ذمے نہیں ہے کیونکہ نفقہ طعام اور لباس کے لیے ہوتا ہے، کیا تو نہیں دیکھتا کہ قاضی بیوی کے لیے طعام اور لباس کے بارے میں نفقہ کا فیصلہ کرتا ہے اور دوا اور حجامہ کے مصارف اداکرنے کا فیصلہ نہیں دیتا، اسی طرح یہاں بھی ہے، سوائے اس کے کہ کسی مقام پر اس کا عُرف وعادت ہو
اور فی زمانہ عموماً بلاد میں عرف یہی ہے کہ اپنی بیوی کا علاج و معالجہ شوہر ہی کرتا ہے اور اسی عرفا اسی کی ذمہ داری بھی سمجھی جاتی ہے ،
لہذا صورت مسئولہ میں بیوی کا علاج و معالجہ حتی الامکان عرفا و اخلاقاً شوہر کے ذمہ ہوگا نہ کہ منکوحہ عورت کے باپ کے ذمہ ! البتہ اگر باپ بطیب خاطر اخراجات برداشت کرے تو یہ اس کی طرف سے تبرع و احسان ہوگا
البتہ جن جگہوں پر یہ عرف نہ ہو وہاں یہ حکم نہیں ہوگا بلکہ جس کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہو وہی ذمہ دار ہوگا
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
۲۹/ جمادی الاول ۱۴۴۵ھ مطابق ۱۴/ دسمبر ۲۰۲۳ء
الجواب صحیح والمجیب نجیح ، عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی٫ شیخ الحدیث جامعۃ النور٫ و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ ( باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ ( باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
المفتی ابوحمزہ محمد عمران النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ ( باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ ( باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
مفتی عبدالرحمن قادری
دارالافتاء غریب نواز لمبی جامع مسجد ملاوی وسطی افریقہ
تاریخ التصحیح:- ۱۹/۱۲/۲۰۲۳