غلام رسول والا مدنی چینل اس طور پر دکھایا جائے تو جائز ورنہ ناجائز
GULAAM RASOOL WALA MADNI CHANNEL IS TAUR PAR DIKHAAYA JAYE TO JAIZ WARNA NAJAIZ
गुलाम रसूल वाला मदनी चैनल इस तौर पर दिखाया जाये तो जाईज़ वरना ना जाईज़
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلے ھذا میں کہ:
آجکل ٹی وی پر اسلامی مضامین کے نام پر غلام رسول کارٹون والا مدنی چینل عبد الباری والا چینل دکھایا جارہا ہے ان کے علاوہ دیگر کثیر چینل ہیں کیا ان چینلوں کو دیکھنا جائز ہے یا نہیں نیز یہ بھی بتائیں کہ کونسا ایسا طریقہ اختیار کیا جائے تو ان کا دیکھنا اور دکھانا جائز ہوجائے۔
نیز یہ بھی بتائیں کہ کونسا چینل اہل سنت والجماعت کا ہے؟
ان کے متعلق مکمل رہنمائی فرمائیں کرم نوازش ہو گی۔
(سائل:محمد شمس تبریز رضوی ممبئی مہاراشٹر الھند)
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب
غلام رسول کارٹون والا مدنی چینل عبد الباری والا چینل ان کے علاوہ دیگر کثیر چینل کا دیکھنا عند الشرع ناجائز و حرام اور گناہ ہے کیونکہ کارٹون بھی تصویر ہی کے حکم میں ہے اگر چہ فی الواقع اس طرح کا کوئی حیوان نظر سے نہ گزرا ہو کہ عام طور پر جتنے کارٹون بنائے جاتے ہیں ان میں ایسا سر ضرور ہوتا ہے جس میں آنکھ ، کان ، ناک منھ ہوتے ہیں اور حیوان ذی روح کا تصور سر سے ہی ہوتا ہے بلکہ صرف چہرے سے ہو جاتا ہے۔
امام اجل ابوجعفر طحاوی حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال الصورۃ الراس فکل شیئ لیس لہ راس فلیس بصورۃ۔
فرمایا:تصویر”سر”کا نام ہے لہٰذا جس چیز کا سرنہ ہو وہ تصویر نہیں۔
(شرح معانی الآثار کتاب الکراھیۃ باب الصورۃ تکون فی الثیاب ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۲/ ۴۰۳)
فتاوی رضویہ شریف میں ہے:
اور شک نہیں کہ فقط چہرہ کو تصویری کہنے اور بنانے والا بارہا اسی پر اقتصار کرتے ہیں ؛ اس میں ہے حتی کہ خود جامع صغیر محرر مذہب امام محمد رحمتہ اللہ تعالی میں صرف ذکر راس پر اقتصار فرمایا کہ اگر تصویر بے سر کی ہو یا اس کا سرکاٹ دیں تو کراہت نہیں اور اسی لئے فتاوی رضویہ شریف میں ارشاد ہوا
تصویر کسی طرح استیعاب مابہ الحیاۃ نہیں ہو سکتی فقط فرق حکایت و فہم ناظر کا ہے اگر اس کی حکایت محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے یعنی ناظر یہ سمجھے کہ گویا ذوالتصویر زندہ کو دیکھ رہا ہے تو وہ تصویر ذی روح کی ہے اور اگر حکایت حیات نہ کرے ناظر اس کے ملاحظہ سے جانے کہ یہ حی کی صورت نہیں میت و بے روح کی ہے تو وہ تصویر غیر ذی روح کی ہے۔ “
(فتاویٰ رضویہ ، 24 / 587)
اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ تصویر میں ان تمام اعضاء و اجزاء کا استعیاب و احالہ نہیں ہوتا ہے جن کے ذریعہ اور جن جن میں حیات ہوتی ہے تصویر کیلئے یہ لازم نہیں ذی روح کی تصویر کیلئے اتناہی کافی ہے کہ دیکھنے والا تصویر دیکھ کر یہ سمجھ لے کہ وہ زندہ کی تصویر دیکھ رہا ہے اور محکی عنہ ( جس کی حکایت کی جائے ) متصور الحیات ہو ایسی تصویر ذی روح کی تصویر سمجھی جائے گی اور اگر محکی عنہ متصور الحیات نہ ہو دیکھنے والا تصویر دیکھ کر زندہ کی صورت نہ سمجھے بلکہ بے روح شئ کی صورت جانے تو وہ غیر ذی روح کی تصویر ہے مثلا مردہ جانور کی تصویر دیکھ کر ناظر یہی سمجھے گا کہ یہ ذی روح کی تصویر ہے کہ مردہ جانور جو محکی عنہ ہے اس کی حکایت اس محکی عنہ میں حیات کا پتہ دے رہی ہے کیوں کہ وہ مردہ جانور متصور الحیات ہے اور گلاس کی تصویر غیر ذی روح کی تصویر ہے کہ ناظر اسے ذی روح کی تصویر نہیں سمجھتا کیوں کہ گلاس جو محکی عنہ ہے اس میں حیات نہیں لہذا یہ غیر ذی روح کی تصویر ہو گی۔
مجلس شرعی کے فیصلے،ج:۱، ص:۳۸۷ میں تصویر ذی روح کی تعریف اس طور پر کی گئی ہے کہ
تصویر ذی روح وہ ہے جو جنس حیوان کی حکایت و مشابہت پر مشتمل ہو، اس طرح کہ سر اور چہرہ کسی حیوان کا ہو۔
(ماخوذ از کتب حدیث و فقه و لغت ، فتاوی رضویہ، ج: ۱۰،ص:۵۰، کتاب الحظر والاباحۃ )
اور کارٹون کے بارے میں یہ حکم ہے کہ
وہ کارٹون جو جنس حیوان کی مشابہت پر مشتمل ہو وہ تصویر ذی روح ہے، جو ایسا نہ ہو وہ ذی روح
کی تصویر نہیں۔
(مجلس شرعی کے فیصلے،ج:۱، ص:۳۸۷)
مذکورہ بالا ضابطے کے تحت یہ روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا کہ کارٹون بھی تصویر ہی کے حکم میں آتا ہے اس لئے مذکورہ بالا چینل کا دیکھنا ناجائز و حرام اور گناہ ہے لہذا ان چینلوں کو دیکھنے سے اجتناب ضروری ہے ورنہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوںگے۔
اور رہی بات ان چینلوں کو کس انداز پر دکھایا جائے تو جائز ہوجائیں گے تو اس کی صورت صرف اور صرف یہی نظر آتی ہے کہ ان تمام چینلوں کے تمام کارٹونوں کے سروں کو ختم کیا جائے اس طور پر کہ ان سروں کی جگہ پر مثل چاند کے کوئی گول آکار کا لوگو یا کوئی چیز لگائی جائے جو تصویر کے حکم میں نہ آئے کیوں کہ شریعت مطہرہ میں تصویر اسی کو مانا گیا ہے جس کا سر ہو اور جس کا سر نہ ہو اس کو تصویر کے حکم میں نہیں مانا گیا۔
امام اجل ابوجعفر طحاوی حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی:
قال الصورۃ الراس فکل شیئ لیس لہ راس فلیس بصورۃ۔
فرمایا:تصویر”سر”کا نام ہے لہٰذا جس چیز کا سرنہ ہو وہ تصویر نہیں۔
(شرح معانی الآثار کتاب الکراھیۃ باب الصورۃ تکون فی الثیاب ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۲/ ۴۰۳)
در مختار میں ہے:
حیث قال(اوکانت صغیرۃ)لاتتبین تفاصیل اعضائھا للناظر قائما وھی علی الارض ذکرہ الحلبی (او مقطوعۃ الراس اوالوجہ)اوممحوۃ عضو لاتعیش بدونہ(اولغیرذی روح)لایکرہ۔
یعنی:چنانچہ فرمایا اگرتصویر اتنی چھوٹی ہوکہ زمین پررکھی ہو تو کھڑے ہوکردیکھنے والے کو اس کے اعضاء کی تفصیل معلوم نہ ہوسکے۔چنانچہ حلبی نے اس کو بیان فرمایا یا اس کا سریاچہرہ کاٹ دیاگیاہو یا اس کے کسی ایسے اندام کو مٹادیاگیاہو کہ جس کے بغیروہ زندہ نہ رہ سکے،یاکسی غیرجاندار کی تصویر ہو تو ان ساری صورتوں میں کراہت نہ ہوگی(ت)
(درمختار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیہا مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۹۲)
ردالمحتارمیں ہے:
قولہ اومقطوعۃ الرأس ای سواء کان من الاصل اوکان لھا رأس ومحی۔
یعنی:مصنف کاقول کہ یاتصویر کاسرکاٹ دیاگیا،یعنی اصل سے اس کا سرنہ ہو،یاسرہولیکن اسے مٹادیاگیاہو۔
(ردالمحتار کتاب الصلوٰۃ باب مایفسد الصلوٰۃ ومایکرہ فیہا داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۴۳۶)
خلاصۃ الفتاوٰی میں ہے:
ان کان مقطوع الراس لاباس بہ ولو محی وجہ الصورۃ فہو کقطع الراس۔
یعنی:اگر تصویر کا سرکاٹ دیا گیا تو پھر اس کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں،اور تصویر کے چہرے کو مٹا دینا سر کاٹنے کی طرح ہے۔
(خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الصلوٰۃ الفصل الثانی الجنس فیمایکرہ فی الصلوٰۃ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱/ ۵۸)
ھدایہ میں ہے:
حیث قال اذا کان التمثال مقطوع الراس فلیس بتمثال۔
یعنی:چنانچہ(صاحبہ ہدایہ نے)فرمایا کہ جب کسی مجسمّے کا سرکاٹ دیاگیاہو توپھر وہ مجسمہ نہ ہوگا۔(ت)
(الہدایۃ کتاب الصلوٰۃ باب مایفسدالصلوٰۃ ومایکرہ فیہا المکتبۃ العربیہ کراچی ۱/ ۱۲۲)
بلکہ یہ جامع صغیر میں نص امام کبیرہے:
محمد عن یعقوب عن ابی حنیفۃ رضی ﷲ تعالٰی عنھم اذا کان راس الصورۃ مقطوعا فلیس بتمثال۔
یعنی:امام محمدنے امام ابویوسف کے حوالہ سے امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے روایت فرمائی کہ اگرتصویرکاسرکاٹ دیاگیاہے تو پھر وہ بلاشبہہ تمثال(مورتی)نہیں(ت)
(الجامع الصغیر کتاب الصلوٰۃ باب فی الامام این تستحب لہ ان یقوم مطبع یوسفی لکھنو ص۱۱)
سنن ابی داؤد جامع ترمذی وسنن نسائی وصحیح ابن حبان وشرح معانی الآثار امام طحاوی ومستدرك حاکم میں ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہے:
قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اتانی جبریل قال اتیتك البارحۃ فلم یمنعنی ان اکون دخلت الا انہ کان علی الباب تماثیل وکان فی البیت فرام ستر فیہ تماثیل کلب فمربراس التمثال الذی علی باب البیت فیقطع فیصیر کھیأۃ الشجرۃ ومربالستر فلیقطع فلیجعل وسادتین منبوذتین توطان ومرالکلب فلیخرج ففعل رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
یعنی:(حضرت ابوہریرہ نے)فرمایاکہ حضورعلیہ الصلوٰہ والسلام نے فرمایا کہ میری خدمت میں حضرت جبرائیل حاضرہوئے اور فرمایا کہ میں گزشتہ رات آپ کی خدمت میں حاضرہواتھا لیکن مجھے اندرداخل ہونے سے صرف اس چیزنے روکاکہ دروازے پرتصویریں تھیں اور گھر میں بھی باریك پردہ تھا کہ جس پرتصویریں موجود تھیں نیزگھرمیں کتاتھا لہٰذا آپ اس تصویر کے متعلق فرمادیں کہ اس کاسرکاٹ دیاجائے تاکہ وہ درخت کی طرح ہوجائے،اورپردے کے بارے میں فرمادیں کہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کردیاجائے اور دومسندیں بنائی جائیں جوزمین پرڈالی اورپاؤں سے روندی جائیں،اور کتے کے بارے میں فرمادیجئے کہ اسے باہرنکال دیاجائے توحضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے سب کچھ اس طرح کیا۔(ت)
(سنن ابی داؤد کتاب اللباس باب فی الصور آفتاب عالم پریس لاہور ۲/ ۲۱۷ جامع الترمذی ابواب الادب باب ماجاء ان الملائکۃ لاتدخل بیتا الخ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۰۴،شرح معانی الآثار کتاب الکراہۃ باب الصور تکون فی الثیاب ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی ۲/ ۴۰۲)
اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد اعلی حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ:
دیکھئے جبریل امین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے بھی عرض کی کہ ان تصویروں کے سرکاٹنے کاحکم فرمادیجئے جس سے ان کی ہیأت درخت کے مثل ہوجائے حیوانی صورت نہ رہے اس کا صریح مفاد تو وہی ہے کہ بے قطع راس حکم منع نہ جائے گا کہ بغیر اس کے نہ پیڑ کی مثل ہوسکتی ہیں نہ صورت حیوانی سے خارج،اور اگرتنزل کیجئے تو اس قدرتولازم کہ ایساکردیجئے جس سے وہ ایك بے جان کی صورت معلوم ہو اس سے حالت بے روحی مفہوم ہو۔
(فتاوی رضویہ،ج:۲۴،ص:۵۸۸)
سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
ثم اقول:(پھرمیں کہتاہوں۔ت)دیگر اعضا وجہ و راس کے معنی میں نہیں اگرچہ مدار حیات ہونے میں مماثل ہوں کہ چہرہ ہی تصویر جاندار میں اصل ہے، و لہٰذا سیدنا ابوہریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ نے اسی کا نام تصویر رکھا اورشك نہیں کہ فقط چہرہ کو تصویرکہتے اوربنانے والے بارہا اسی پراقتصار کرتے ہیں ملوك نصارٰی کہ سکہ میں اپنی تصویر چاہتے ہیں اکثر چہرہ تك رکھتے ہیں اور بیشك عامہ مقاصد تصویر چہرہ سے حاصل ہوتے ہیں۔
(فتاوی رضویہ،ج:۲۴،ص:۵۷۹)
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ تصویر کا حکم اسی پر لگایا گیا ہے جس کا سر ہو اور جس کا سر نہ ہو اس کو تصویر کے حکم میں نہیں مانا گیا۔لہذا مذکورہ بالا ضابطے کے تحت اب یہ غیر ذی روح کی تصویر یا خاکے یا نقشے والے اسلامی چینل چلائیں جائیں تو ان کا چلانا عند الشرع جائز و درست ہے بشرطیکہ کوئی مانع شرعی نہ ہو جیسے: میوزک کا ہونا عورتوں کی فحش تصاویر کا آنا وغیرہ وغیرہ
اس حقیر و فقیر کو صرف اور صرف یہی پتہ ہے کہ غلام رسول کا کارٹون والا چینل ہی اہل سنت والجماعت کا ہے اور رہے دیگر چینل تو ان کے بارے میں کچھ پتہ نہیں لہذا ان کے بارے میں تحقیق و تفتیش کرلیں کہ کس جماعت کے ہیں اگر اہل سنت والجماعت کے ہی ہیں تو بہت خوب ورنہ انہیں بھی دیکھنا حرام ہوگا
کتبہ:
جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند 8390418344