فی زمانہ نکاح میں مناسب مہر کتنا ہونا چاہئے ؟ کوشش کرکے کم سےکم مہر مقرر کرنا کیسا ہے ؟
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ فی زمانہ دین مہر کتنا ہونا چاہئے ؟ بعض علاقوں میں بہت کم مہر باندھتے ہیں مثلاً ڈھائی ہزار ، پانچ ہزار وغیرہ ، کیا ایسا کرنا درست ہے ؟
سائل ۔۔ عبداللہ ہبلی کرناٹک
الجواب بعون الملک الوھاب
کم سےکم مہر ہمارے مذہب حنفی میں دس درہم ہے
چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
*” لا صَدَاقَ دُونَ عَشَرَةِ دراهم “*
*(سنن الدار قطنی ، کتاب النکاح ، باب المہر ، ۳/۱۷۵ ، رقم الحدیث: ۳۵۴۶ ، مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۲ھ)*
ترجمہ: دس درہم سے کم مہر نہیں
دس درہموں کا وزن جدید پیمانے کے اعتبار سے تقریباً 33 گرام چاندی ہے ، لہذا 33 گرام چاندی کی اس وقت جو بنے کم سےکم اتنی رقم مہر میں ہونا لازم ہے
دس درہم کی مقدار سے زیادہ عاقدین باہمی رضامندی سے جتنا چاہیں باندھ سکتے ہیں لیکن مستحب یہ ہے کہ اگر حیثیت ہوتو مہر وہ باندھا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادیوں اور ازواج مطہرات رضی اللّٰہ عنھن کا باندھا
چنانچہ حدیث پاک میں ہے
*” عن أبي سلمة بن عبدِ الرَّحْمَنِ، أَنہ قَالَ : سَأَلْتُ عايشة زوج النبي صلی الله علیہ وسلم: كم كان صداق رسُول الله صلی اللہ علیہ وسلم ؟ قالت: كان صَداقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثنتی عشرة أوقية ونشا ، قالت أتدري ما النش ؟ قال: قلت: لا. قالت: نصف أوقية فتلك خمسمائة دِرْهُم فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم لأَزْواجِهِ “*
*(صحیح مسلم ، کتاب النکاح ، باب الصداق وجواز كونه تعلیم قرآن وخاتم حديد وغير ذلك من قليل وكثير ، ص۶۶۵ ، رقم الحدیث ۳۳۷۸ ، مطبوعہ دارالفکر بیروت ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۴ھ)*
ترجمہ: حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنھا سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج کے لئے مہر کتنا تھا ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج کے لئے مہر بارہ اوقیہ اور ایک نُش تھا، (پھر) فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ نش کی کتنی مقدار ہے؟ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی : نہیں ! تو انہوں نے فرمایا : نصف اوقیہ ۔ پس یہ ساڑھے بارہ اوقیہ پانچ سو درہم کے برابر ہیں اور یہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج کے لئے مہر ہے
اور دوسری حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا
*” ما زوج بنتاً من بناته، ولا تزوج شيئاً من نسائه إلا على اثنتي عشرة أوقية “*
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام صاحبزادیوں اور ازواج مطہرات کا مہر بارہ اوقیہ مقرر فرمایا
ایک اور حدیث میں ہے
*” كان صداق بنات النبي صلى الله عليه وسلم، وصداق نسائه، خمس مئة درهم “*
*(مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب النکاح ، باب ما قالوا فی مھور النسآء ، ۹/۱۳۲,۱۳۳ ، رقم الحدیث: ۱۶۶۲۸,۱۶۶۳۰ ، دارالقبلۃ ، الطبعۃ الاولی:۱۴۲۷ھ)*
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صاحبزادیوں اور ازواج مطہرات کا مہر پانچ سو درہم تھا
اور امام اہلسنت امام احمد رضا قادری حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ فرماتے ہیں
*” عامه ازواج مطہرات و بنات مكرمات حضور پُرنور سید الكائنات علیه وعليهن افضل الصلواة و اکمل التحیات کا مہرا قدس پانچ سو درہم سے زائد نہ تھا۔۔۔ مگر اُم المومنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان خواہر جناب امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہم کہ ان کا مہر ایک روایت پر چار ہزار درہم۔۔۔ دوسری میں چار ہزار دینار تھا،۔۔۔ اور حضرت بتول زہر ارضی اللہ تعالی عنہا کا مہر ا قدس چار سو مثقال چاندی “*
*(فتاوی رضویہ مترجم، کتاب النکاح ، باب المہر ، ۱۲/۱۳۵,۱۳۶ ، رقم المسئلۃ ۱۱ ملتقطاً، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)*
فی زمانہ ساڑھے بارہ اوقیہ یا پانچ سو درہم یا چار سو مثقال چاندی کا جدید وزن تقریباً ایک کیلو آٹھ سو چھیاسٹھ گرام (1.866 grm ) ہوتا ہے ،
*(شرعی اوزان جدید پیمانوں میں ، ازمفتی صالح صاحب ، شیخ الحدیث مرکز الدراسات الاسلامیہ جامعۃ الرضا بریلی شریف)*
جس کی قیمت آج کے دن تقریباً ایک لاکھ پینتالیس ہزار پانچ سو پچاس( 145550 ) روپے ہوتے ہیں
اس زمانہ میں جبکہ شادیوں میں لغویات ، خرافات ، غیر شرعی رسومات ، مہنگا جہیز ، اپنی واہ واہی کیلئے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں روپے فضول و غیر شرعی کاموں میں خرچ کرنے کی ایک رسم سی چل پڑی ہے ، مگر جب بات دین مہر کی آتی ہے تو بہت معمولی سا مہر باندھا جاتا ہے ، اور کم سے کم مہر پر دلیلوں کے انبار لگائے جاتے ہیں ، شریعت کے سارے اصول صرف مہر طئے کرتے وقت یاد آتے ہیں ، اور مہندی ، ہلدی ، مہنگے جہیز ، ویڈیو گرافی ، فوٹو گرافی ، ڈی جے ، میوزک ، کار کی سجاوٹ ، کاروں کی لمبی قطار ، سینکڑوں باراتی ، مہنگے ترین سوٹ ، دولہے اور دولہن کے گھر والوں اور رشتہ داروں کے ایک جیسے ڈریس ، کھانے کے نام پہ درجنوں قسم کے آئٹم ، جوس ، ٹھنڈے کی بوتل ، چائے ، پان ، شیونگ سیلون ، جوتے پالش ، دس قدم کیلئے دولہے کی خاطر گھوڑا ، دولہن کیلئے پھولوں کا سائبان ، لاکھوں روپے کا پنڈال ، پنڈال کی سجاوٹ ، ٹی وی سیریلوں میں دیکھ کر طرح طرح کے ہندوانہ رسوم وغیرہ وغیرہ
ان سب چیزوں کیلئے شرعی اصول یاد نہیں آتے ، لیکن جہاں مہر کی بات آئی وہاں پر درجنوں بےعلم عوام مفتی بن کر فتوی دینا شروع کردیتے ہیں کہ شادی آسان ہونا چاہئے ، مہر دولہے کی حیثیت کے مطابق باندھنا چاہئے ، نتیجتاً کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم مہر باندھا جائے ، ہندوستان کے کئی علاقوں میں ابھی چند سال قبل تک گیارہ سو ، پندرہ سو ، ڈھائی ہزار روپے مہر باندھا جاتا تھا ، اب آج کل پانچ ہزار سات سو چھیاسی روپے عموماً مہر باندھا جاتا ہے ، اس پر بھی کہیں کہیں دولہے والوں کی طرف سے اعتراض ہوتا ہے کہ بہت زیادہ مہر ہے ، انہیں کون سمجھائے کہ جتنے میں تم نے ویڈیو گرافر کو بلایا ہے ، اتنے میں تو ایک اچھا خاصا مہر ہوجاتا ، مگر نہیں ! ان جنابوں کو اس میں پیسوں کی تنگی کا احساس نہیں ہوتا ، بس مہر مقرر کرتے وقت ساری غریبی یاد آتی ہے
یاد رکھیں ! مہر عورت کا شرعی حق ہے ، اسے کم سے کم کرکے فی زمانہ دو چار ہزار میں سمیٹ دینا اس کے ساتھ نا انصافی ہے
چنانچہ شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی حنفی متوفی ۱۴۲۱ھ فرماتے ہیں
*” شادی بیاہ میں بہت سی ہندوانی رسمیں داخل ہوگئی ہیں ، برات جو صرف ایک جائز فعل ہے اس پر ہزاروں روپے صرف کیے جاتے ہیں، زیادہ سے زیادہ جہیز دینے کا رواج عام بڑھ رہا ہے۔ حتی کہ رواج کے مطابق جہیز مہیا نہ ہونے کی صورت میں لڑکیوں کی شادیاں مؤخر کی جاتی ہیں۔ بلکہ اب تو دولہا والے جہیز طے کر کے شادی کرتے ہیں۔ جو قطعا رشوت اور حرام ہے۔ مہر جو اللہ عز وجل اور رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقرر کردہ حق ہے اس میں کمی ہوتی جارہی ہے، اور جو مقرر بھی ہوتا ہے اسے شاید باید ہی کوئی شوہر ادا کرتا ہے۔ وہی دولہا والے جو برات اور ولیمہ میں ہزار ہا ہزار بلکہ بہت سے لاکھوں لاکھ روپے خرچ کرتے ہیں، اور عورت کے ماں باپ سے ہزاروں ، لاکھوں کا جہیز وصول کرتے ہیں جب مہر کی بات آئی تو چیں بجبیں ہو جاتےہیں۔ اب ایک نظریہ ملاحظہ کیجیے : میرے بچپنے میں یعنی ۱۳۵۰ھ تک مہر کی مقدار چاندی کے پچیس روپے تھے اور ابھی سال بھر پہلے تک انصاری برادری میں لکھ پتی کی لڑکی کا بھی مہر دو سوا کیا ون تھا بہت تغیر کے بعد اب پانچ سو ایک روپے نوٹ ہوا۔ جو صرف آٹھ روپے چاندی کی قیمت ہوئی۔ یہ بے زبان مجبور لڑکیوں کی بہت بڑی حق تلفی ہے۔ حضرت سیدہ فاطمہ زہرہ کا عقد مبارک حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایسی حالت میں ہوا جب ان کے پاس ایک زرہ اور گھوڑے کے سوا کچھ نہ تھا۔ مگر مہر مبارک چارسو مثقال چاندی مقرر ہوا، جو چاندی کے روپیوں سے ایک سو ساٹھ روپے ہوتے ہیں۔ ہر دیندار سوچے کہ آج کل مسلمان بچیوں پر کس قدر ظلم ہورہا ہے یہ سب باتیں ضرور قابل اصلاح ہیں “*
*(فتاوی شارح بخاری ، کتاب العقائد ، باب الفاظ الکفر ، ۲/۴۳۷ ، دائرۃ البرکات گھوسی)*
نوٹ : ہم نے کم سے کم مہر باندھنے پر گفتگو کی ہے ، بعض علاقوں میں جو پانچ پانچ ، دس دس لاکھ روپے مہر باندھے جاتے ہیں ان کی ہرگز وکالت نہیں کی ہے کہ حیثیت سے زیادہ مہر باندھنا بھی پسندیدہ نہیں ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
*” يسروا ولا تعسروا “*
*(الصحیح للبخاری ، کتاب الادب ، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم یسروا ولا تعسروا ، رقم الحدیث: ۶۱۲۵ ، ص۱۵۳۰ ، دار ابنِ کثیر)*
ترجمہ: آسانی کرو سختی نہ کرو
لہذا ہماری تحریر کو زیادہ مہر باندھنے والے دلیل نہ بنائیں
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ ۔۔۔
محمد شکیل اخترالقادری النعیمی غفرلہ
شیخ الحدیث مدرسۃالبنات مسلک اعلیٰ حضرت صدر صوفہ ہبلی کرناٹک الھند
۲۱/ ربیع الآخر ۱۴۴۵ھ مطابق ۶/ نومبر ۲۰۲۳ء
الجواب صحیح والمجیب نجیح عبدہ الدکتور المفتی محمد عطاء اللہ النعیمی شیخ الحدیث جامعۃ النور و رئیس دارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب نجیح
محمد شرف الدین رضوی غفرلہ ، دارالعلوم قادریہ حبیبیہ فیلخانہ ہوڑہ کلکتہ
الجواب صحیح
محمد جنید النعیمی غفرلہ ،
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
ملک کاشف مشتاق النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح والمجیب مصیب
فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی
رئیس دارالافتاء ھاشمیہ آگرہ تاج کالونی لیاری کراچی
الجواب صحیح
محمد مہتاب احمد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
الجواب صحیح
محمد فرحان القادری النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الضیائیۃ کراتشی
الجواب صحیح
محمد قاسم النعیمی الاشرفی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء الغوثیۃ کاشی فور اتراکھنڈ
الجواب صحیح
محمد عمران المدنی النعیمی غفرلہ
رئیس دارالافتاء محمدی کراتشی
الجواب صحیح
محمد شہزاد النعیمی غفرلہ
المفتی بدارالافتاء النور لجمعیۃ اشاعۃ اھل السنۃ (باکستان)کراتشی
تاریخ التصحیح: ۲۳/۱۱/۲۰۲۳ء