قبل خطبہ جمعہ اذان ثانی ازروئے شرع کس جگہ سے کہنی چاہئے حوالہ حدیث شریف سے دیں؟
اذان ثانی کا روبروئے خطیب داخل مسجد منبر کے قریب ہونا کیسا ہے؟
اذان مذکور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ پاک میں داخل مسجد ہوا کرتی تھی کہ خارج مسجد؟
جس حدیث سے اذان مذکور خارج مسجد ہونا ثابت ہے وہ حدیث منسوخ ہے کہ نہیں؟
اگر خارج مسجد اذان ہونے والی حدیث منسوخ ہے تو ناسخ کون سی حدیث ہے؟
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت مروج نہ ہو اس کو رائج کرنا کیسا ہے؟
قوم کے عمل سے جو سنت اٹھ چکی ہو اس کو رائج کرنے والے اور کرانے والے کی فضیلت بیان فرمائیں؟
مسئلہ: از وکیل الدین قدوائی مکان نمبر ۵۱۷؍۸۸ چمن گنج کان پور۔
اول(۱) قبل خطبہ جمعہ اذان ثانی ازروئے شرع کس جگہ سے کہنی چاہئے حوالہ حدیث شریف سے دیں؟
دوم(۲) اذان ثانی کا روبروئے خطیب داخل مسجد منبر کے قریب ہونا کیسا ہے؟
سوم(۳) اذان مذکور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ پاک میں داخل مسجد ہوا کرتی تھی کہ خارج مسجد؟
چہارم(۴) جس حدیث سے اذان مذکور خارج مسجد ہونا ثابت ہے وہ حدیث منسوخ ہے کہ نہیں؟
پنجم(۵) اگر خارج مسجد اذان ہونے والی حدیث منسوخ ہے تو ناسخ کون سی حدیث ہے؟
ششم (۶) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی جو سنت مروج نہ ہو اس کو رائج کرنا کیسا ہے؟
ہفتم(۷) قوم کے عمل سے جو سنت اٹھ چکی ہو اس کو رائج کرنے والے اور کرانے والے کی فضیلت بیان فرمائیں؟
الجواب: اللھم ھدایۃ الحق والصبواب (۱) جمعہ کی اذان خواہ اذان اوّل ہو یا اذان ثانی یونہی نماز پنجگانہ کی اذان سب کے لئے حکم شرعی یہ ہے کہ وہ خارج مسجد ہو کیونکہ مسجد کے اندر اذان ممنوع ہے فتاویٰ قاضی خاں ص ۷۸ مطبوعہ مصر جلد اول۔ فتاویٰ عالمگیری جلد اوّل مطبوعہ مصر ۵۵‘ بحر الرائق جلد اوّل مطبوعہ مصر ۲۶۸ ‘شرح نقایہ علامہ برجندی ص ۸۴ ‘فتح القدیر مطبوعہ مصر جلد اوّل ص ۱۷۱‘ فتاویٰ خلاصہ قلمی ص ۶۲ میں ہے: لایؤذن فی المسجد یعنی مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے تو جس طرح اس حکم فقہی کے پیش نظر نماز پنجگانہ کی اذان مسجد کے اندر ممنوع ہے ٹھیک یونہی جمعہ کی اذان ثانی بھی داخل مسجد ناجائز ہے۔ ہاں اس اذان کے لئے مزید حکم یہ ہے کہ خارج مسجد ہونے کے ساتھ خطیب کے سامنے ہو۔ بعض لوگوں نے نظر و فکر سے عاری ہونے کے باعث خطیب کے سامنے ہونے کا معنی یہ سمجھا ہے کہ منبر سے قریب خطیب سے دو ہاتھ کے فاصلے پر اذان ہو لیکن یہ ان حضرات کی غلطی ہے کیونکہ خطیب کا سامنا جس طرح قریب سے ہو سکتا ہے ٹھیک یونہی دور سے بھی ہو سکتا ہے‘ اور جب اسلامی فقہ نے مسجد میں اذان دینا ممنوع قرار دے دیا تو ایسی صورت میں حکم شرعی یہ ہو گا کہ مؤذن خارج مسجد اس جگہ کھڑا ہو اور اذان دے دہاں اس کے اور چہرۂ خطیب کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو حضور پرنور سیّدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس میں خطبہ والی یہ اذان مسجد کے باہر دروازے پر ہوتی تھی سنن ابوداؤد شریف جلد اوّل ص ۱۵۶ میں ہے:
عن سائب بن یزید رضی اللہ عنہ قال کان یؤذن بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا جلس علی المنبر یوم الجمعۃ علی باب المسجد وابی بکر و عمر۔
عنی جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن (خطبہ کے لئے) منبر پر تشریف رکھتے تو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دروازۂ مسجد پر اذان ہوتی اور (ایسا ہی) حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما (کے زمانہ میں) ان دونوں حضرات کے سامنے (دروازۂ مسجد پر اذان ہوتی تھی اور کہیں منقول نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفائے راشدین نے مسجد کے اندر اذان دلوائی ہو اگر اس کی اجازت ہوتی تو بیان جواز کے لئے کبھی ایسا ضرور فرماتے‘ تو دن دوپہر میں آفتاب کی طرح روشن ہو گیا کہ بمطابق حدیث شریف و حسب ارشاد فقہائے اسلام جمعہ کی اذان ثانی خطیب کے مقابل خارج مسجد ہو۔
دوم(۲) جب کتب فقہ نے ضابطۂ کلیہ بیان کر دیا کہ مسجد کے اندر اذان دینا جائز نہیں تو بالکل آئینہ کی طرح یہ مسئلہ واضح ہو گیا کہ جمعہ کی اذان ثانی بھی چونکہ ایک اذان ہے اس لئے اس کابھی مسجد کے اندر ہونا جائز نہیں ہاں روبروئے خطیب ہونا یہ بیشک مشروع ہے‘ اور اس پر عمل کی صورت یہ ہے کہ مؤذن خارج مسجد اذان دینے کے لئے اس جگہ کھڑا ہو جہاں اس کے اور خطیب کے چہرہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو۔
سوم(۳) خطبہ والی اذان، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مقدسہ میں داخل مسجد نہیں ہوتی تھی بلکہ خارج مسجد دورازہ پر ہوتی تھی جیسا کہ سنن ابوداؤد کی حدیث شریف مذکور بالا سے واضح اور ثابت ہے۔
چہارم(۴) حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی جس حدیث سے اذانِ خطبہ کا خارج مسجد ہوناثابت ہے وہ ہرگز منسوخ نہیں کیونکہ اسی حدیث سے یہ بھی واضح ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد خطبہ والی اذان صحابۂ کرام کے زمانہ میں خارج مسجد دروازہ پر دی جاتی تھی حالانکہ حضرات صحابہ نے یہ اذان خارج مسجد دروازہ پر دلوائی۔ پھر یہ حدیث شریف تو اخبار میں سے ہے اس کے منسوخ ہونے کے کیا معنی۔
پنجم(۵) حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کی حدیث مذکورہ بالا نہ تو منسوخ ہے‘ اور نہ اس کی کوئی ناسخ حدیث ہے۔ دلیل یہ ہے کہ حضرات فقہائے کرام صاف صاف بالاعلان تحریر فرماتے ہیں: لایؤذن فی المسجد یعنی مسجد کے اندر اذان نہ دی جائے تو اگر کوئی ناسخ حدیث ہوتی جس سے یہ ثابت ہوتا کہ خطبہ والی اذان مسجد کے اندر جائز ہے تو فقہاء ضابطۂ کلیہ بیان فرمانے کے وقت اس کا مستثناء ضرور فرماتے اور یوں تحریر کرتے: لا یؤذن فی المسجد الا اذان الخطبۃ یعنی مسجد کے اندر صرف اذان خطبہ جائز ہے باقی اور کوئی اذان جائز نہیں لیکن ان ائمہ دین نے اذان خطبہ کا استثناء نہیں فرمایا توثابت ہو گیا کہ حدیث ابوداؤد مذکور بالا کی ناسخ کوئی حدیث نہیں۔
ششم (۶) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مردہ سنت کو زندہ کرنا یعنی رائج کرنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔
ہفتم(۷) حضور اقدس افضل المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
من احیی سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ۔ رواہ السجزی فی الابانۃ عن انس رضی اللہ عنہ
عنی جس نے میری مردہ سنت کو رائج کیا بیشک اس کو مجھ سے محبت ہے‘ اور جس کو مجھ سے محبت ہے وہ میرے ساتھ جنت میں ہو گا۔ اللھم ارزقنا۔ ایک دوسری حدیث میں پیارے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وبارک وسلم فرماتے ہیں:
من احیٰی سنۃ من سنتی فقد امیتت بعدی فان لہ من الاجر مثل اجور من عمل بھا من غیران ینقص من اجورھم شیئا رواہ الترمذی عن بلال رضی اللہ عنہ۔
یعنی جو شخص میری کوئی سنت زندہ کرے جسے لوگوں نے میرے بعد چھوڑ دیا ہو تو جتنے اس پر عمل کریں گے سب کے برابر اس زندہ کرنے والے کو ثواب ملے گا اور ان کے ثوابوں میں کچھ کمی نہ ہو گی۔ ایک تیسری حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
: من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجرمأتہ شھید رواہ البیھقی فی الذھد عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
عنی میر امت کے (اعمال) بگڑ جانے کے وقت جو شخص میری سنت مضبوط تھامے اسے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔ پھر چونکہ دور حاضر میں جمعہ کی اذان ثانی سنت نبوی علی صاحبھا الصلوٰۃ والسلام کے صریحاً خلاف مسجد کے اندر دلوانے کا رواج قائم ہے اس لئے جو شخص سنت نبوی زندہ کرنے کے لئے اس اذان کو دروازۂ مسجد پر دلوائے گا وہ ان تمام فضائل و حسنات کا مستحق ہو گا جو احادیث مذکورۂ بالا میں بیان کئے گئے وانما التوفیق من اللہ تعالٰی ورسولہُ الاعلٰی واللّٰہ تعالیٰ و رسولہ الاعلٰی اعلم جل جلالہ وصلی المولی علیہ وسلم۔
کتبہ: بدر الدین احمد الصدیقی القادری الرضوی،
۱۸؍ ربیع النور ۱۳۸۷ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۱۱/۲۱۰/۲۰۹/۲۰۸)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند