قرآن ہمیں ہندوستانی کہہ رہا ہے یہ کہنا کیسا؟ QURAAN HAMEN HINDUSTANI KAH RAHA HAI YE KAHNA KAISA HAI? क़ुरआन हमें हिन्दूस्तानी कह रहा है ये कहना कैसा है?

 قرآن ہمیں ہندوستانی کہہ رہا ہے یہ کہنا کیسا؟

QURAAN HAMEN HINDUSTANI KAH RAHA HAI YE KAHNA KAISA HAI?
क़ुरआन हमें हिन्दूस्तानी कह रहा है ये कहना कैसा है?
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ہٰذا میں کہ
کوئی یہ کہے کہ قرآن ہمیں ہندوستانی کہتا ہے اور اس کی دلیل میں یہ آیت” منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارة اخری” پڑھ کر اس آیت سے استدلال کریں کہ اللہ ہندوستانی مسلمانوں سے فرماتا ہے اسی سے ہم نے تمہیں پیدا کیا یعنی اسی ہندوستانی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا اور اسی ہندوستانی زمین میں تمہیں لوٹائیں گے اور اسی ہندوستانی زمین سے دوبارہ تمہیں اٹھائیں گے
کیا اس کا یہ کہنا صحیح ہے اگر نہیں تو اس پر کیا حکم ہے
قرآن و احادیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
(سائل) محمد سبطین رضا علی گڑھ
+919628768610
*وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
*الجواب بعون الملک الوہاب*
مذکورہ بالا صورت مستفسرہ میں جواب یہ ہے کہ
مذکورہ بالا مسئلے میں جیسا کہ سائل صاحب نے ذکر کیا کہ اللہ تعالی ہمیں ہندوستانی کہہ رہا ہے اور حوالہ کےلئے یہ آیت کریمہ پیش کر رہا ہے
مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی ﴿۵۵﴾
یعنی:ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا اور اسی میں تمہیں پھر لے جائیں گے اور اسی سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے
سائل کے اس قول کو قرآن و احادیث کی روشنی میں جانچتے ہیں کیا اس طرح کہنا صحیح ہے یا نہیں
اس آیت مبارکہ کے ما تحت تفسیر جلالین میں ہے
مِنۡهَا ای( من الارض ) خَلَقۡنٰكُمۡ (بخلق ابیکم آدم منھا )وَفِيۡهَا نُعِيۡدُكُمۡ(مقبورین بعد الموت ) وَمِنۡهَا نُخۡرِجُكُمۡ(عند العبث) تَارَةً(مرۃ) اُخۡرٰى‏ (کما اخرجناکم عند ابتداء خلقکم)مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی
قولہ (مقبورین ) ای حال کونکم مدفونین فی القبورین اھ شیخنا
قولہ(عند ابتداء خلقکم)اشار الی ان قولہ(تارۃ اخری)راجع الی قولہ(منھا خلقناکم) فانہ بمعنی اخرجناکم ای من الارض اخرجناکم و نخرجکم بعد الموت من الارض تارۃ اخری اھ کرخی
(تفسیر جلالین سورۃ 20 طه آیت 55 پ 16 ص 315)
تفیسر جمل میں ہےکہ
مِنۡهَا ای( من الارض ) خَلَقۡنٰكُمۡ (بخلق ابیکم آدم منھا )وَفِيۡهَا نُعِيۡدُكُمۡ(مقبورین بعد الموت ) وَمِنۡهَا نُخۡرِجُكُمۡ(عند العبث) تَارَةً(مرۃ) اُخۡرٰى‏ (کما اخرجناکم عند ابتداء خلقکم)
قولہ :(بخلق ابیکم آدم )فعلی ھذا یکون خلق کل انسان غیر آدم من الارض بوسائط عدیدۃ بقدر ما بینہ و بین آدم و ھذا احد قولین و القول الآخر ان کل انسان خلق من التراب من غیر واسطۃ و ذلک التراب ھو الذی یلقیہ الملک الموکل بالرحم علی النطفۃ فیختلق منھما الولد و فی القرطبی منھا خلقناکم یعنی آدم علیہ السلام لانہ خلق من الارض قالہ ابو اسحاق الزجاج و قیل ان کل نطفہ مخلوقۃ من التراب و علی ھذا یدل ظاہر القرآن و قال عطاء الخراسانی اذا وقعت النطفۃ فی الرحم انطلق الملک الموکل بالرحم فاخذ من التراب المکان الذی یدفن فیہ فیذرہ علی النطفۃ فیخلق اللہ النسمۃ من النطفۃ و من التراب فذلک قولہ تعالی
(مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی)
قولہ (مقبورین ) ای حال کونکم مدفونین فی القبورین اھ شیخنا
قولہ (عند ابتداء خلقکم ) اشار الی ان قولہ( تارۃ اخری) راجع الی قولہ( منھا خلقناکم )فانہ بمعنی اخرجناکم ای من الارض اخرجناکم و نخرجکم بعد الموت من الارض تارۃ اخری اھ کرخی
(تفسیر الجمل ج 5 ص 78)
تفسیر روح البیان میں ہے
منھا زمین سے
تاویلات نجمیہ میں ہے کہ اس سے وہ مٹھی مراد ہے جو عزرائیل علیہ السلام نے بامر الہی آدم علیہ السلام کے لیے جملہ روئے زمین سے اٹھائی تھی
خلقناکم تمہیں تمہارے باپ آدم علیہ السلام کی وساطت سے پیدا فرمایا آدم و حوا علیہما السلام کے سوا باقی جملہ آدم زادہ نطفے سے پیدا ہوئے
وفیھانعیدکم اور تمہیں موت کے بعد اسی زمین میں دفن کرائیں گے جہاں سے تمہارا خمیر لیا گیا
(تفیسر روح البیان ج 8 ص 310)
تفیسر در منثور میں ہے
امام عبد بن حمید اور ابن المنذر رحمہما اللہ نے حضرت عطاء الخراسانی رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں فرشتہ اس جگہ کی مٹی لیتا ہے جہاں انسان نے مدفون ہونا ہوتا ہے پھر وہ اسے نطفہ پر بکھیرتا ہے پس انسان اس مٹی اور اس کے نطفہ سے پیدا ہوتا ہے منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم سے یہی مراد ہے
(تفسیر در منثور ج 4 ص 787 مترجم)
تفسیر ابن کثیر میں ہے
منھا خلقناکم یعنی زمین سے تمہاری تخلیق کا آغاز ہوا کیوں کہ تمہارے باپ آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے مرنے کے بعد اس میں ہی تم لوٹوں گے اور اسی سے ایک مرتبہ پھر تمہیں زندہ کرکے نکالا جائے گا اس وقت کیفیت یہ ہوگی یوم یدعوکم فتستجیبون بحمدہ وتظنون ان لبثتم الا قلیلا
بنی اسرائیل
اور اس دن کو یاد کرو جب اللہ تمہیں بلائے گا سو تم اس کی حمد کرتے ہوئے جواب دو گے اور یہ گمان کر رہے ہو گے کہ (تم دنیا )میں تھوڑا عرصہ ٹھہرے یہ آیت کریمہ منھاخلقناکم اس آیت کی طرح ہے فیھا تحیون وفیہا تموتون و منھا تخرجون فرمایا اسی زمین میں تم زندہ رہو گے اور اسی میں مرو گے اور اسی سے تم اٹھائے جاؤ گے
(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 271)
تفسیر نعیمی میں ہے
منھا خلقناکم ہم نے اس مٹی سے پیدا کیا
وفیھانعیدکم ہم تم کو اسی مٹی میں پھر پہنچا دیں گے
و منھا نخرجکم تارۃ اخری دوبارہ ابدی زندگی کے لیے اسی زمین سے پھر ہم تم کو نکال لیں گے اگر چہ تم کو کسی جگہ کسی شکل و کیفیت و حالت میں موت آئی ہو یا بعد موت تم کہیں پڑے ہو راکھ بنے یا خاک بنے پڑے ہو قبر میں ہو یا سمندر کی تہوں میں بکھرے پڑے ہوں
اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو دنیا ئے زمین دین کی تمام اقسام کی مٹی لی گئی اب ہر آدمی کو بنایا جاتا ہے تو عزرائیل علیہ السلام صرف اس کی قبر کی مٹی لیتے ہیں پھر مرنے کے بعد وہی دفن کیا جاتا ہے
منھاخلقناکم کی دو صورتیں ہیں ایک دنیا کے پہلے رسول آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا مٹی کو پانی سے گوندا آگ سے سکھایا اور ہوا سے زندہ کیا نور کے ذریعے محفوظ فرمایا یہی چار عناصر انسان کی بقاءکے لیے آج تک ہر انسان میں ہیں ان کا ہر انسان اپنی دنیوی حیات میں محتاج ہے کیونکہ آگ ہوا پانی بھی زمین سے ہی ہے اسی لئے منھا فرمایا دوم اس لئے کی زمین سے غذا غذا سے نطفہ نطفے سے لوتھڑا گوشت پوسٹ ہڈی پھر بچہ پھر مولود
(تفیسر نعیمی ج 16 ص 440)
تبیان القرآن میں ہے
اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں تم کو لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تم کو باہر نکالیں گے
اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا ایک ہی مٹی سے مخلوق ہونا –
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے تم کو اسی زمین سے پیدا کیا ہے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ہم کو نطفہ سے پیدا کیا ہے اور قرآن مجید میں بھی یہی فرمایا ہے
خلق الانسان من نطفہ (النحل : ٤) انسان و نطفہ سے پیدا کیا۔-
ان خلفا الانسان من نطفۃ امشاج (الدھر : ٢) بیشک ہم نے انسان کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا۔-
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے جد امجد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں اور وہ ہماری اصل ہیں اور ان کو اللہ تعالی نے مٹی سے پیدا کیا ہے تو چونکہ اصل انسان کو اللہ تعالی نے مٹی سے پیدا کیا ہے تو اس وجہ سے فرمایا ہم نے تم کو اس زمین سے پیدا کیا ہے ایک اور سورت میں اللہ تعالی نے ہماری خلقت کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ طِیۡنٍ ﴿ۚ۱۲﴾ثُمَّ جَعَلۡنٰہُ نُطۡفَۃً فِیۡ قَرَارٍ مَّکِیۡنٍ ﴿۪۱۳﴾ ثُمَّ خَلَقۡنَا النُّطۡفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقۡنَا الۡعَلَقَۃَ مُضۡغَۃً فَخَلَقۡنَا الۡمُضۡغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوۡنَا الۡعِظٰمَ لَحۡمًا ٭ ثُمَّ اَنۡشَاۡنٰہُ خَلۡقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحۡسَنُ الۡخٰلِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾
یعنی اور بیشک ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا فرمایا پھر ہم نے اس کو مضبوط جائے قرار میں نطفہ بنا کر رکھا پھر ہم نے نطفہ کو جما ہوا خون بنادیا، پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کی بوٹی بنادیا، پھر گوشت کی بوٹی سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں کو گوشت پہنا دیا۔ پھر ہم نے (اس میں روح ڈال کر) ایک اور مخلوق بنایا، سو اللہ بڑی برکت والا ہے جو سب سے بہتر بنانے والا ہے۔
(المومنون :12-14)
اور انسان کی پیدائش نطفہ اور حیض کے خون سے ہوتی ہے اور نطفہ اور حیض کا خون دونوں غذا سے بنتے ہیں اور غذا گوشت اور سبزیوں سے حاصل ہوتی ہے اور گوشت بھی حیوانوں کے سبزہ کھانے سے بنتا ہے تو غذا کا رجوع اور مآل سبزیوں کی طرف ہے اور سبزیاں پانی اور مٹی کے امتزاج سے پیدا ہوتی ہیں تو خلاصہ یہ ہے کہ نطفہ اور حیض کا خون زمین کی مٹی سے پیدا ہوتا ہے لہذا یہ کہنا صحیح ہے کہ ہر انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے۔
(تبیان القرآن پ 16 سورہ طہ آیت 55)
تفسیر صراط الجنان میں ہے
{منها خلقنكم:ہم نے زمین ہی سے تمہیں بنایا ۔} ارشاد فرمایا کہ ہم نے تمہارے جد اعلی ،حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو زمین سے پیدا کر کے تمہیں اس سے ہی بنایا اور تمہاری موت اور دفن کے وقت اسی زمین میں تمہیں پھر لوٹائیں گے اور قیامت کے دن اسی زمین سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے۔
( جلالین، طہ، تحت الایۃ: ۵۵، ص۲۶۳)
(تفسیر صراط الجنان پ 16 سورہ طہ آیت55)
ضیاء القرآن میں ہے
حضرت آدم (علیہ السلام) جو ابو البشر ہیں جب ان کو مٹی سے پیدا کیا گیا تو گویا ہر انسان کا اصل مٹی ہوا یا اس کی وجہ یہ ہے کہ نطفہ غذا سے تیار ہوتا ہے اور غذائیں زمین سے اگتی ہیں گویا ہر شخص اپنے اصل و نطفہ کے لحاظ سے مٹی سے پیدا کیا گیا۔ پھر مرنے کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے اور قیامت کے روز اسی سے نکالا جائے گا۔ علامہ ابو عبد اللہ القرطبی نے حضرت براء کی روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بندہ مومن کی روح جب نکلتی ہے تو فرشتے اسے لے کر اوپر جاتے ہیں اور جب فرشتوں کے کسی گروہ کے پاس سے ان کا گزر ہوتا ہے تو بڑے معزز القاب سے وہ اس کا تعارف کراتے ہیں۔ جب ساتویں آسمان پر پہنچتے ہیں تو اللہ تعالی فرماتا ہے اکتبو العبدی کتابا فی علیین واعیدوہ الی الارض فانی منھا خلقتہم وفیہا اعیدھم ومنھا اخرجھم تارۃ اخری فتعاد روحہ فی جسدہ یعنی میرے اس بندے کی کتاب کو علیین میں لکھ دو ۔ اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو کیونکہ میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا اور اسی میں لوٹاؤں گا اور وہیں سے دوبارہ نکالوں گا پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔
(ضیاء القرآن پ16 سورہ طہ آیت 55)
نور العرفان میں ہے
معلوم ہوا کہ بعد موت سب زمین میں ہی جائیں گے ۔ یابراہ راست اس میں دفن ہوں گے یاس طرح کہ جل جائیں یا انہی شیر وغیرہ کھائے پھر ان کے اجزاء اصلیہ زمین میں رہیں، بلکہ جو سمندر میں ڈوب جائیں اور انہیں مچھلیاں کھالیں وہ بھی زمین میں ہی گئے کیونکہ سمندر کا پانی بھی زمین پر ہے۔ اس لیے انسان کو قدرتی طور پر زمین سے محبت ہے کہ یہ زمین اس کی معاش ومعاد ہے جنت کا راستہ یہاں سے ہی نکلتا ہے۔
(نور العرفان پ 16 سورہ طہ آیت 55)
احادیث مبارکہ میں بھی اس کا ذکر موجود ہے
حضرت ابوہریرہ (رضیاللہ تعالی عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے اس کے اوپر اس کی قبر کی مٹی چھڑ کی جاتی ہے، ابوعاصم نے کہا تم حضرت ابوبکر اور عمر کے لئے اس جیسی فضیلت نہیں پا سکو گے، کیونکہ ان دونوں کی مٹی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مٹی سے ہے۔
(حلیتہ الاولیاء ج 2 ص 318، رقم الحدیث :2389، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت :1418 ھ)
حضرت ابن عباس (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے فرمایا ہر انسان کو اس مٹی میں دفن کیا جانا ہے جس سے وہ پیدا کیا گیا ہے۔
(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :6531، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت :1403 ھ)
حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے، فرشتہ زمین سے مٹی لے کر اس کی ناف کاٹنے کی جگہ پر رکھتا ہے، اس مٹی میں اس کی شفاء ہوتی ہے اور اسی میں اس کی قبر ہوتی ہے۔
(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :6533، مطبوعہ بیروت)
حضرت انس (رضی اللہ تعالی عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ جو پیدا ہوتا ہے اس کی ناف میں وہ مٹی ہوتی ہے جس سے وہ پیدا کیا جاتا ہے اور جب وہ ارذل عمر کی طرف لوٹایا جاتا ہے تو وہ اس مٹی کی طرف لوٹایا جاتا ہے جس سے وہ پیدا کیا جاتا ہے، حتی کہ اس مٹی میں اس کو دفن کیا جاتا ہے اور میں اور ابوبکر اور عمر ایک ہی مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں اور اسی مٹی سے ہم اٹھائے جائیں گے۔
(فردوس الاخبار ج 4 ص 235، اللئالی المصنوعتہ ج 1 ص 286)
حضرت ابن عباس (رضی اللہ تعالی عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اور ابوبکر اور عمر ایک مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔
(فردوس الاخبار ج 2 ص 305، رقم الحدیث :2775،)
( کنز العمال رقم الحدیث :32683،)
(تنزیہہ الشریعتہ ج ۃ ص 349)
حضرت ابن مسعود (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے فرمایا جو فرشتہ ارحام کے ساتھ موکل ہے وہ رحم سے نطفہ لے کر اپنی ہتھیلی پر رکھتا ہے اور کہتا ہے اب رب یہ پیدا کیا جائے گا یا پیدا نہیں کیا جائے گا، اے رب اس کا رزق کتنا ہے، اے رب اس کے اعمال کیسے ہیں، اے رب اس کی مدت حیات کتنی ہے، پھر جس جگہ اس کو دفن کیا جائے گا وہاں کی مٹی لے کر اس کو نطفہ کے ساتھ گوندھتا ہے۔
(قرآن مجید میں ہے:
منھا خلقنا کم و فیھا نعید کم،
(طہ :52)
(نوادر الاصول ج 1 ص 67، دارالجیل،)
(اللئالی المصنوعتہ ج1ص285، 284)
امام احمد رضا قادری نے متوفی 1340 ھ لکھتے ہیں :-
خطیب نے کتاب المتفق و المفترق میں عبداللہ بن معسود (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے روایت کی کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر بچہ کی ناف میں اس مٹی کا حصہ ہوتا ہے جس سے وہ بنایا گیا یہاں تک کہ اسی میں دفن کیا جائے گا اور میں اور ابوبکر و عمر ایک مٹی سے بنے، اسی میں دفن ہوں گے۔
(فتاوی افریقیہ ص 99, 100 مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)
ان تفاسیر و احادیث مبارکہ سے روز روشن کی طرح ظاہر ہوگیا کہ انسان کو اسی مٹی سے بنایا جاتا ہے جس میں اسے دفن ہونا ہے لیکن ان مذکورہ بالا تفاسیر و احادیث مبارکہ میں نہ اشارۃ نہ وضاحۃ یہ پتہ نہیں چل پارہا ہے کہ انسان کو ہندوستان کی ہی مٹی سے بنایا گیا بلکہ یہاں پر آیت کریمہ عموم پر دال ہے نہ کہ خاص پر
لہذا مذکورہ بالا مسئلے میں جیسا کہ سائل صاحب کہہ رہے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں ہندوستانی کہہ رہا ہے تو آپ نے کس طرح جان لیا کہ آپ کی موت ہندوستان میں ہی ہو
حالانکہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ ۚ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ۔
یعنی بیشک اللہ کے پاس ہے قیامت کا علم اور اتارتا ہے مینھ اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے، اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کل کیا کمائے گی اور کوئی جان نہیں جانتی کہ کس زمین میں مرے گی، بیشک اللہ جاننے والا بتانے والا ہے
(پ 21 سورہ لقمان آیت 34)
معلوم ہوا کہ بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ‘ وہی بارش نازل فرماتا ہے ‘ اور وہی (ازخود) جانتا ہے کہ (مائوں کے) رحموں میں کیا ہے ‘ اور کوئی شخص (ازخود) نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی شخص (ازخود) نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا ‘ بیشک اللہ ہی بہت جاننے والا سب کی خبر رکھنے والا ہے
حدیث مبارکہ میں ہے
حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ تعالی عنہ ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مفاتیح الغیب (غیب کی چابیاں) پانچ ہیں ‘ بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے ‘ وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی (ازخود) جانتا ہے کہ (مائوں کے) رحموں میں کیا ہے ‘ اور کوئی شخص (ازخود) نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی شخص (ازخود) نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا۔-
(معالم التنزیل ج 3 ص 493)
(الجامع لاحکام القرآن جز 14 ص 77)
(روح البیان ج 8 ص 123)
(روح المعانی جز 21 ص 167)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ
موت کا وقت مقرر ہے ہر جاندار مخلوق کی موت کا وقت مقرر ہے نہ اس میں کوئی تقدیم ہوگی اور نہ ہی تاخیر ہوگی بلکہ وقت مقررہ پر ہی اس کی موت آئے گی
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ اَجَلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ ﴿۳۴﴾
اور ہر گروہ کا ایک وعدہ ہے تو جب ان کا وعدہ آئے گا ایک گھڑی نہ پیچھے ہو نہ آگے
حدیث شریف میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
ان روح القدوس نفت فی روعی ان نفسا لن تموت حتی تستکمل رزقھا یعنی بے شک روح القدوس نے میرے باطن میں وحی فرمائی کہ کوئی جاندار نہ مرے گا جب تک وہ رزق پورا نہ کرلے
( التر غیب والترہیب ج 538/6)
اللہ تعالی نے اپنے علم کے مطابق ہر ایک کی موت کی جگہ مقرر کردی ہے لیکن ہم نہیں جانتے ہیں کہ کونسی جگہ ہے البتہ جس کی موت جس مقام پر لکھی ہوگی اسی مقام پر اس کی موت آئے گی چاہے وہ اس مقام سے کتنے ہی دور کے فاصلے پر ہو جب اس کی موت کا وقت آئے گا تو کسی نہ کسی طرح اس مقام پر پہنچ جائے گا جس مقام پر اس کی موت لکھی ہوئی ہے
ابن ابی شیبہ نے (منصف ) میں حضرت خیثمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ
ایک مرتبہ حضرت ملک الموت علیہ السلام سیدنا حضرت سلیمان علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ میں آئے اور آپ کے ساتھیوں میں سے ایک شخص کو گھور کر دیکھنے لگے جب حضرت ملک الموت علیہ السلام چلے گئے تو اس شخص نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے دریافت کیا یہ شخص کون تھے آپ نے فرمایا کہ یہ ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام تھے اس شخص نے عرض کی سرکار ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ میری روح نکالنے کا ارادہ رکھتے تھے آپ نے فرمایا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے اس نے عرض کی آپ ہواؤں کو حکم دیں کہ وہ مجھے سرزمین ہند میں پہنچا دے آپ نے حکم دیا تو ہواؤں نے اس شخص کو آن کی آن میں سر زمین ہند میں پہنچا دیا پھر ملک الموت تشریف لائے تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا کہ تم میرے ایک ساتھی کو گھور کر کیوں دیکھتے تھے انہوں نے کہا کہ حضرت میں اس پر تعجب کر رہا تھا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اس شخص کی روح ہند میں قبض کروں اور یہ شخص آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے ہند کیسے پہنچے گا
(شرح الصدور بشرح حال الموتی و القبور مترجم ص 50 از امام جلال الدین سیوطی)
مندرجہ بالا واقعہ سے پتہ چلا کہ آدمی اپنی موت کی جگہ ضرور پہنچ جاتا ہے حالانکہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اپنی موت کی جگہ جا رہا ہوں بلکہ وہاں جانے کیلئے بے تاب و بے قرار ہوکر ہر حال میں وہاں پہنچتا ہے جیسے کہ مذکورہ واقعہ میں یہ شخص سرزمین ہند میں جوں ہی وقت مقرر پہنچا اسی وقت اس کی روح قبض کرلی گئی اپنی موت کی جگہ آدمی کو معلوم نہیں ہوتی البتہ اللہ تعالی کی عنایت و عطا سے اور اللہ تعالی کے بتانے سے اللہ تعالی کے محبوب بندے اپنی جائے اجل بلکہ دوسروں کی بھی جائے اجل جانتے ہیں
پوری تفصیلی گفتگو سے پتہ یہ چلا کہ جو شخص یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ہندوستانی کہہ رہا ہے اس کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے اور وہ اپنے اس قول میں خاطی ہے لہذا اس پر ضروری ہےکہ وہ اپنے اس قول سے رجوع کریں اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ کرے کیونکہ جو بغیر علم کے بات کہتا ہے اس کے متعلق بہت وعیدیں آئی ہوئی ہیں
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
*(بتاریخ ۱۸/ اگست بروز اتوار ۲۰۱۹/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
✒ــــــــــــــــــ✿🕹✿ـــــــــــــــــــ✒
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد عطاء الله النعيمي غفرله خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی حال مدینہ منورہ
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط منظور احمد یار خان علوی صدر شعبہ افتاء دار العلوم اہل سنت برکاتیہ گلشن نگر جوگیشوری ممبئی
الجواب صحيح والمجيب نجيح فقط محمد شکیل قادری صاحب قبلہ
درست ہے
مگر طویل ہے اس کو مختصر کیاجاتا تو بہتر ہوتا
مثلا جس مٹی سے پیدا ہوا اسی میں لوٹایا جائے یعنی جہاں کی مٹی سے پیدا ہوا وہیں دفن ہوگا اور موت ودفن کی جگہ ہمیں نہیں معلوم کہ اللہ ہی جانتاہے کہ کون کس زمین میں مرےگا
لہذا سائل کا یہ آیت سے استدلال فاسد ہے کہ خود اسے بھی پتہ نہیں کہ وہ ہندوستان میں مرےگا یاکہیں اور وغیرہ وغیرہ

Share and Enjoy !

Shares

2 thoughts on “قرآن ہمیں ہندوستانی کہہ رہا ہے یہ کہنا کیسا؟ QURAAN HAMEN HINDUSTANI KAH RAHA HAI YE KAHNA KAISA HAI? क़ुरआन हमें हिन्दूस्तानी कह रहा है ये कहना कैसा है?”

  1. جزاک اللہ خیرا فی الدارین حضور والا مرتبت اگر کچھ کمی رہے تو اس ناچیز حقیر و فقیر جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند کو اطلاع کریں کرم نوازش ہو گی

Comments are closed.

Scroll to Top