نو مسلمہ کا نکاح پڑھانے والے کی امامت جائز ہے یا نہیں؟

نو مسلمہ کا نکاح پڑھانے والے کی امامت جائز ہے یا نہیں؟

مسئلہ: از محمد عارف پیش امام مسجد نیلگراں وارڈ نمبر ۲ سبحان گڑھ ضلع چورو (راجستھان)
زید نے ایک مشرکہ عورت سے زنا کیا یہاں تک کہ کچھ مدت گزرنے کے بعد اس نے اپنے مشرک شوہر کو چھوڑ کر اسلام بھی قبول کر لیا اور یہ عورت نہ حاملہ تھی نہ حائضہ۔ اس نے سرکاری دفتر میں جا کر اسلام قبول کیا اور اس نے زید ہی سے نکاح کی خواہش ظاہر کی تو نکاح پڑھانے والے نے بھی قبل از نکاح اس کے سامنے احکام پیش کئے اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ عیہ وسلم کی ریاست کا اقرار کرایا اور کفر و شرک اور دیگر ممنوعات شرعیہ سے اجتناب پر بیعت لی اس کے بعد پھر زید ہی سے اس کا نکاح پڑھا دیا تو اس نکاح پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا‘ تو ایسی صورت میں نکاح پڑھانے والے کے پیچھے نماز درست ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں نوازش ہو گی۔

الجواب: اگر شوہر والی کافرہ عورت مسلمان ہو جائے تو حکم ہے کہ اس کے شوہر پر اسلام پیش کیا جائے اگر وہ اسلام لے آئے تو عورت بدستور اس کی بیوی ہے‘ اور اگر شوہر اسلام لانے سے انکار کرے تو تین حیض کے بعد عورت دوسرے سے نکاح کر سکتی ہے اس سے پہلے نکاح کرنا صحیح نہیں۔ امام ابن ھمام فتح القدیر جلد سوم ص ۲۸۸ میں تحریر فرماتے ہیں: ولید بن مغیرہ کی صاحبزادی صفوان بن امیہ کے عقد میں تھیں جو فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئیں مگر ان کا شوہر صفوان بھاگ گیا مسلمان نہ ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے درمیان تفریق نہ کی یہاں تک کہ صفوان بھی مسلمان ہو گئے‘ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نصرانیہ کے مسلمان ہونے پر اس وقت تفریق کی جب کہ اس کے شوہر نے مسلمان ہونے سے انکار کر دیا جیسا کہ فتح القدیر کی اسی جلد اور اسی صفحہ پر ہے‘ اور بہار شریعت حصہ ہفتم بیان حرمت بالشرک صفحہ ۲۷ پر ہے: اگر عورت پہلے مسلمان ہوئی تو مرد پر اسلام پیش کریں اگر تین حیض آنے سے پہلے مسلمان ہو گیا تو نکاح باقی ہے ورنہ بعد کو جس سے چاہے نکاح کرے۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں جب کافرہ عورت مسلمان ہوئی تو اس وقت سے اسے تین حیض آنے سے پہلے اگر اس کا شوہر مسلمان ہو جائے تو وہ بدستور اس کی بیوی ہے طلاق یا اس کی موت کے بغیر اس کی بیوی سے نکاح کرنا جائز ہے‘ اور اگر وہ مسلمان نہ ہو تو تین حیض آنے کے بعد وہ کسی مسلمان سنی صحیح العقیدہ سے نکاح کر سکتی ہے۔ اگر بعد اسلام فوراً نکاح کیا تو جائز نہ ہوا۔ عورت و مرد ایک دوسرے سے الگ رہیں اور جو گناہ ہوئے ان سے توبہ کریں اور نکاح خواں نیز جتنے لوگ اس نکاح سے راضی رہے سب علانیہ توبہ و استغفار کریں اور نکاح خواں تاوقتیکہ اپنی غلطی پر نادم ہو کر توبہ نہ کرے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھیں۔ ھٰذا ماعندی والعلم عنداللّٰہ تعالٰی ورسولہُ الاعلٰی جل جلالہ صلی المولیٰ تعالیٰ۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدیؔ
۱۷؍ ربی الاخریٰ ۱۴۰۱ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۲۸۷/۲۸۶)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top