نہ آئےامام مہدی،نہ نکلا دجال
میدان میں حماس اور اسرائیل
اول(1)سات روزہ جنگ بندی کے بعد آج سے اسرائیل نے غزہ پٹی پر بمباری شروع کر دی ہے۔جنگ بندی کی مدت میں اسرائیل نے صرف بمباری بند کی تھی،لیکن اسرائیلی فوج غزہ اور ویسٹ بینک میں فلسطینیوں کو مسلسل ہلاک کرتی رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آج کی بمباری میں سو سے زائد عام فلسطینی مسلمان ہلاک ہو چکے ہیں اور قریبا سو اسرائیلی فوجی بھی مارے جا چکے ہیں۔مختلف شہروں میں حماس نے بھی راکٹ ومیزائل داغے ہیں۔ان حملوں میں بھی کچھ یہودی ہلاک ہوئے ہوں گے،لیکن اسرائیلی میڈیا اپنی ہلاکت کی خبر عام نہیں کرتا،تاکہ دنیا اسے فاتح سمجھے،لیکن ساری دنیا میں اسرائیل کی شکست کی داستان پھیل چکی ہے۔
دوم(2)چوں کہ دو ملکی نظریہ(Two Nation Theory)اقوام متحدہ میں زیر بحث ہے،لہذا اسرائیل اور اس کے حامی ممالک چاہتے ہیں کہ حماس کا نام ونشان مٹا دیا جائے،تاکہ فلسطین میں اسرائیل کی حمایت کرنے والی حکومت قائم ہو،تاکہ مشرق وسطی میں مغربی ممالک اور اسرائیل کے اثرات قائم رہیں۔
سوم(3)دوسری جنگ عظیم کے بعد1949 میں دنیا دو خیموں میں تقسیم ہو چکی ہے۔دنیا کے اکثر ممالک پر امریکہ اور مغربی ممالک کے اثرات ہیں اور بعض ممالک روس کے زیر اثر ہیں۔امریکہ نے اپنے حامی ممالک کی ایک تنظیم بنائی ہے جو نیٹو(NATO)کے نام سے مشہور ہے۔فی الوقت قریبا تیس ممالک اس کے ممبر ہیں۔
چہارم(4)دنیا کے بہت سے ممالک امریکی اثرات سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں ہیں۔مشرق وسطی اور عرب کے بہت سے ممالک بھی امریکہ سے آزاد ہونا چاہتے ہیں،لیکن بہت سے عرب ممالک بھی امریکہ کے حامی ہیں۔
پنجم(5)ذو الفقار علی بھٹو(پاکستان)،شاہ فیصل(سعودی عرب)ودیگر مسلم لیڈروں نے مسلم ممالک کا ایک اتحاد بنانا چاہا تھا،لیکن امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے(CIA)نے اسے کامیاب ہونے نہیں دیا۔بعض ممالک میں ان لیڈروں کی حکومت گرا دی گئی اور بعض ممالک کے لیڈروں کو قتل کروا دیا گیا۔اس کے بعد مسلم حکم راں امریکہ کے غلام بنے رہتے ہیں۔
ایران اگر امریکہ کو آنکھیں دکھاتا رہتا ہے تو اس کی پشت پر روس ہے اور خود ایران نے ہتھیار بنا لیا ہے اور اپنی فوجی پوزیشن مستحکم کر لیا ہے۔ترکی 1952سے نیٹو(NATO)کا ممبر ہے۔وہ مسلمانوں کی حمایت میں بیان بازی کر سکتا ہے اور حسب ضرورت مالی مدد کر سکتا ہے،لیکن کسی مسلم ملک پر آفت آئے تو وہ فوجی کاروائی نہیں کر سکتا ہے۔
اسلامی ممالک میں روس وایران کے اثرات بڑھنے کی امید ہے۔ابتدائی مرحلہ میں روس مسلمانوں پر زیادہ ظلم نہیں کرے گا،کیوں کہ اسے اپنے اثرات قائم کرنے ہیں۔بعد میں وہی ہو گا جو امریکہ اور مغربی ممالک کرتے رہے ہیں۔
مسلم ممالک پر جب ایران کے اثرات بڑھیں گے تو جیسے سعودی عرب نے دنیا بھر میں وہابیت کو پھیلانے کی کوشش کی ہے،ویسی کوشش ایران بھی کرے گا۔یہ مذہبی محاذ ہے۔اس محاذ کو سر کرنے کے لئے علمائے کرام کو تیار رہنا ہو گا۔یہاں جنگ وجدال کی ضرورت نہیں،بلکہ شواہد ودلائل کی ضرورت ہے۔مغربی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں سنی شیعہ میں جنگی محاذ آرائی کی کوشش کریں گی،لیکن علمائے کرام کو علمی محاذ آرائی کرنی چاہیے،جیسے وہابیوں سے محض علمی محاذ آرائی ہوتی ہے۔
پاکستان،عراق،شام،لیبیا وغیرہ میں شیعہ سنی جھگڑے خوب کروائے گئے اور ان ملکوں کو تباہ کر دیا گیا۔چند دن قبل ایران اور سعودی عرب نے دفاعی معاہدہ کیا ہے۔امریکی سیاست اسے برداشت نہیں کر پائے گی،کیوں کہ یہ شیعہ و سنی اتحاد ہے۔سعودی وہابی ملک ہے،لیکن دنیاوی اصطلاح کے اعتبار سے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:سنی اور شیعہ۔اسی اصطلاح کے اعتبار سے غیر شیعہ ممالک کو سنی ملک کہا جاتا ہے۔
عراق،شام،لیبیا،افغانستان وغیرہ میں شیعہ و سنی کو ایک دوسرے مقابل کھڑا کر دیا گیا اور جنگی محاذ آرائی کرائی گئی،اور امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کسی ایک جانب ہو کر بے شمار مسلمانوں کو ہلاک کیے۔دشمن کو بس موقع ملنا چاہیے،لہذا شیعہ و سنی اختلاف کی وہی نوعیت ہونی چاہئے جو قرآن وحدیث میں بیان کی گئی ہے،یعنی ترک تعلق اور علمی محاذ آرائی۔علمائے کرام دنیاوی وملکی سیاست کا اس قدر مطالعہ ضرور کریں کہ وہ تحفظ مذہب ومسلک کے ساتھ امت مسلمہ کو ہلاکت سے بچا سکیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:یکم دسمبر 2023