وہابی دیوبندیوں بد مذہبوں کا چندہ لینا کیسا ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
حضرت ایک سوال عرض ہے کہ
کسی بد مذہب نیتا chairman سے جو موجودہ حکمران ہو اُس سے چندہ لینا کیسا ہے؟
قرآن و احادیث کی روشنی میں مفصل جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی
_****************************************_
💢سائل💢 محمد سمیر رضا بریلی شریف
💢گروپ💢 پیغام اعلی حضرت گروپ
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
_****************************************_
*وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ*
*📝الجواب بعون الملک الوہاب ⇩*
**************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
وہابی دیوبندیوں کا چندہ لینے کے بارے میں دو صورتیں ہیں ایک صورت میں چندہ لینا ناجائز ہے اور دوسری صورت میں لے سکتا ہے مگر اس سے بچنا ہی بہتر ہے
👈وہ صورت جس میں چندہ لینا ناجائز ہے وہ یہ ہے کہ اگر بد مذہب گمراہ نے کسی کار خیر میں لگانے کو روپیہ اگر اس طور پر دیتا ہے کہ ؛ کار خیر یا مسلمانوں پر احسان رکھتا ہے یا اس کے سبب کار خیر میں کوئی مداخلت رہےگی تو لینا جائز نہیں ـ
کیوں کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
” اني نهيت عن زبدالمشركين“
“مجھے مشرکوں کی داد و دہش سے منع کر دیا گیا ہے۔
📗✒جامع الترمذی، ابواب السير، باب ماجاء فی قبول هدايا المشركين، ج: 1، ص191، امین کمپنی، دهلی
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
” انا لانستعين بمشرك یعنی بے شک ہم کسی مشرک سے مددطلب نہیں کرتے ۔“
سنن ابو داود، كتاب الجهاد
📗✒فتاوی رضویه، ج:16، ص:463
حدیث مبارکہ میں ہے
” اني لا اقبل هدية مشرك یعنی بے شک میں مشرک کا ھدیہ قبول نہیں کرتا ‘‘
📗✒فتاوی رضویه، ج16، ص:467
اور فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” انا لا نقبل شيئا من المشركين یعنی بے شک ہم مشرکوں کی کوئی شئی قبول نہیں کرتے۔“
📗✒فتاوی رضویہ، ج 16، ص:467)
جیساکہ سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ کافر کے دئیے ہوئے پیسے کو مسجد میں لگانے کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں ــ*
مسجد میں لگانے کو روپیہ اگر اس طور پر دیتا ہے کہ ؛ مسجد یا مسلمانوں احسان رکھتا ہے یا اس کے سبب مسجد میں کوئی مداخلت رہےگی تو لینا جائز نہیں ـ
📗✒فتاوی رضویہ جلد ششم ص 484
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ وہابی دیوبندیوں نے اگر اس طور پر دیا ہے تو ان سے لینا ناجائز ہے
اور دوسری صورت کہ جس میں لے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر بد مذہب گمراہ نے نیاز مندانہ طور پر بغیر احسان جتلائے اور کسی وہابی دیوبندی کا عمل دخل کئے بغیر چندہ دیا تو اس رقم کو لینے میں کوئی حرج نہیں
💎جیسا کہ سرکار اعلی حضرت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ اور اگر نیازمندانہ طور پر پیش کرتا ہے تو حرج نہیں ـ جبکہ اس کے عوض کوئی چیز کافر کی طرف سے خرید کر مسجد میں نہ لگائی جائے ـ بلکہ مسلمان بطور خود خریدیں یا راہبوں ، مزدوروں ، کی اجرت میں دیں ـ اور اس میں بھی اصلاً وہی طریقہ ہے ـ کہ کافر مسلمان کو ہیبہ کردے ـ اور مسلمان اپنی طرف سے لگائیں ــ
📗✒فتاوی رضویہ جلد ششم ص 484
🕹لیکن اگر وہابی دیوبندی سے چندہ لینے کے سبب اس بات کا اندیشہ ہو کہ مسلمانوں کو بھی اجتماع اور ان کے دوسرے مذہبی پروگراموں میں چندہ دینا پڑیگا ـ یا ان کی تعظیم کرنی پڑیگی تو ایسی صورت میں کسی بھی کام کیلئے ان سے چندہ لینا جائز نہیں ـ البتہ چندہ ان سے بہر حال ہرگز نہ مانگے ـ حکم مذکور اس صورت میں ہے جب کہ وہ خود دے ــ(پھر بھی بچنا افضل ہے)
📗✒فتاوی فقیہ ملت جلد 2ص 147
🕹مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ کسی بھی کار خیر میں وہابی دیوبندی بد مذہب گمراہ کی طرف سے دیا گیا پیسہ اگرچہ استعمال کیا جاسکتا ہے، لیکن دینی غیرت و حمیت کا تقاضا ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے۔ اہل اسلام کو کسی کار خیر،مسجد اور مذہبی شعائر کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات خود اٹھانے چاہئیں۔
_****************************************_
*(🌺واللہ اعلم بالصواب🌺)*
_****************************************_
*✍ کتبہ: جلال الدین احمد امجدی رضوی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں و بانی و مہتمم تاج الشریعہ لائبریری پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند
(بتاریخ ۱۴/ربیع الاول بروز جمعرات مطابق ۲۰/اکتوبر ۲۰۲۱/ عیسوی)*
*( موبائل نمبر 📞8390418344📱)*
_*************************************
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁