کفر کی چار قسمیں ہیں جن میں سے ایک کفر نفاق ہے۔
کفر نفاق کسے کہتے ہیں؟
منافق کی چار خصلتیں ہیں۔
منافق کی دو قسمیں ہیں اعتقادی اور عملی۔
منافق اعتقادی کون ہے۔
منافق اعتقادی کافروں کی بدترین قسم ہے۔
منافق عملی کون ہے۔
کسی کو منافق کہا تو کیا حکم ہے؟
کسی مسئلہ میں متعدد احتمالات کفر کے ہوں اور ایک کفر کا نہ ہو تو کیا حکم ہے؟
منافق کا لفظ عموما عملی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔
مسئلہ: از طفیل احمد قادری چشتی بھدوکھر ضلع بستی
(۱) منافق کسے کہتے ہیں؟
(۲) زید سنی صحیح العقیدہ علماء اہلسنّت کے اقوال حقہ کو مانتا ہے حافظ قرآن مجید بھی ہے بکر نے اسے محض اپنی امامت میں روڑا سمجھتے ہوئے علی الاعلان متعدد بار منافق کہا۔ کیا زید کو ایسی صورت میں منافق کہنا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو مع حوالہ تحریر فرمائیں اور اگر نہیں جائز ہے تو اس کا الزام کس حد تک ہے؟
(۳) اگر کسی نے بکر سے تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا حکم کیا تو یہ حکم شرعاً کس جرم میں شمار ہو گا؟
الجواب: (۱) سورۂ بقرہ رکوع اوّل کی آیت کریمہ: اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآئٌ الخ کے تحت تفسیر خازن میں ہے کہ کفر کی چار قسمیں ہیں جن میں سے ایک ہے:
کفر نفاق وھوان یقربلسانہ ولایعتقد صحۃ ذٰلک بقلبہ
یعنی کفر نفاق یہ ہے کہ آدمی زبان سے اسلام کا اقرار کرے مگر دل سے اس کے صحیح ہونے کا اعتقاد نہ رکھے‘ اور ابن ماجہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من ادرک الاذان فی المسجد ثم خرج لم یخرج لحاجتہ وھو لایرید الرجعۃ فھو منافق یعنی اذان کے بعد جو شخص مسجد سے چلا گیا اور کسی حاجت کے لئے نہیں گیا اور نہ اس کا واپس ہونے کا ارادہ ہے تو وہ منافق ہے‘ اور مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
: اربع من کن فیہ کان منافقا خالصاً ومن کانت فیہ خصلۃ منھن کانت فیہ خصلۃ من النفاق حتی یدعھا اذا اؤتمن خان واذا احدث کذب واذا عاھد غدرواذ اخاصم فجر۔
یعنی جس میں یہ چار باتیں ہوں گی وہ خالص منافق ہے‘ اور جس میں ان خصائل میں سے ایک ہو گی اس میں ایک خصلت نفاق کی پائی جائے گی یہاں تک کہ اس کو
چھوڑ دے۔ جب امانت رکھی جائے تو خیانت کرے‘ جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘ جب عہد کرے تو دغا کرے اور جب جھگڑا کرے تو گالی بکے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں: صاحب ایں خصال بحقیقت منافق نیست بلکہ مراد آن ست کہ ایں صفات لائق منافقاں ست و سزاوار بحال مسلمانان آنست کہ ازینہا پاک ومبرا باشند (اشعۃ اللمعات جلد اوّل ص ۷۵) ثابت ہوا کہ منافق کی دو قسمیں ہیں۔ منافق اعتقادی اور منافق عملی۔ منافق اعتقادی وہ شخص ہے جو زبان سے اپنے اسلام کو ظاہر کرے اور دل میں کفر کو چھپائے رکھے جیسے عبداللہ بن ابی وغیرہ۔ قرآن مجید کی آیت کریمہ: اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ط اسی منافق اعتقادی کے بارے میں ہے جو کافروں کی بدترین قسم ہے‘ اور منافق عملی وہ شخص ہے کہ جس کے ایمان میں خرابی نہ ہو مگر سیرت و کردار میں نفاق ہو جیسے کذاب‘ خائن اور بدعہد وغیرہ۔
(۲) زید کو بکر کے منافق کہنے کی دو صورتیں ہیں: اوّل یہ کہ منافق اعتقادی یعنی کافر جان کر کہا تو یہ کفر ہے اس صورت میں بکر پر توبہ اور تجدید نکاح واجب ولازم ہے۔ دوسرے یہ کہ منافق عملی جان کر کہا کہ احادیث کریمہ میں جس کے اعمال و کردار ہیں نفاق ہو اسے منافق کہا گیا ہے تو یہ کفر نہ ہوا۔ اس صورت میں بکر پر تجدید ایمان و تجدید نکاح واجب نہ ہو گا مگر کسی سنی صحیح العقیدہ کو منافق کہنا جائز نہیں۔ لہٰذا بکر توبہ کرے۔
(۳) جس نے بکر کو تجدید ایمان و تجدید نکاح کا حکم دیا اس سے دریافت کیا جائے کہ اس نے بکر کے قول کو منافق اعتقادی پر محمول کیا ہے یا منافق عملی پر، اگر منافق اعتقادی پر محمول کیا تو تجدید ایمان و نکاح کا حکم صحیح ہے‘ مگر جس کلام کے دو معنی ہوں ایک کفری، دوسرا اسلامی تو متکلم کی مراد معلوم کئے بغیر کلام کو کفری معنی کی طرف پھیرنا اور قائل کو کافر سمجھ کر تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا حکم دینا دیانت کے خلاف اور خیانت کی طرف مضاف ہے۔ شرح فقہ اکبر للملا علی القاری علیہ الرحمۃ الباری ص ۲۳۷ میں ہے:
نقل صاحب المضمرات عن الذخیرۃ ان فی المسئلۃ اذا کان وجوہ توجب التکفیر ووجہ واحد یمنع التکفیر فعلی المفتی ان یمیل الی الذی یمنع التکفیر تحسینا للظن بالمسلم ثم ان کان نیت القائل الوجہ الذی یمنع التکفیر فھو مسلم و ان کان نیتہ الوجہ الذی یوجب التکفیر لا ینفعہ فتوی المفتی ویومر بالتوبۃ والرجوع عن ذٰلک وبتجدید النکاح بینہ وبین امرأتہ۔
یعنی صاحب مضمرات نے ذخیرہ سے نقل کیا ہے کہ جب کسی مسئلہ میں متعدد احتمالات (قائل کی) تکفیر کا سبب بنتے ہوں اور ایک احتمال تکفیر کا سبب نہ بنتا ہو تو مفتی کو چاہئے کہ اس احتمال کی طرف مائل ہو جس سے (اس کی) تکفیر نہ ہوتی ہو اس لئے کہ اس صورت میں مسلمان کے ساتھ حسن ظن ہے۔ پھر متکلم کی مراد اگر وہی معنی تھے جس سے اس کی تکفیر نہ ہوتی ہو تو اس لئے کہ اس صورت میں مسلمان کے ساتھ حسن ظن ہے۔ پھر متکلم کی مراد اگر وہی معنی تھے جس سے اس کی تکفیر نہ ہوتی تھی تب تو وہ مسلمان ہے اور اگر اس کی مراد و معنی ہیں جوکافر کہے جانے کا سبب ہیں تو (اس کے مسلمان ہونے کے متعلق) مفتی کا فتویٰ کچھ بھی مفید نہ ہو گا اوراس کو اس قول سے توبہ، رجوع اور اپنی بیوی سے تجدید نکاح کا حکم دیا جائے گا۔ ا ھ۔ اور اگر بکر کے قول کو منافق عملی پر محمول کیا تو پھر تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا حکم کرنا صحیح نہیں بالخصوص جبکہ منافق کا لفظ یہاں کے اطلاق میں عملی کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ شخص تجدید ایمان اور تجدید نکاح کے حکم سے رجوع کرے کہ اس میں ایک مومن کے لئے دینی اور دنیاوی تنگی پیدا کر رہا ہے۔
ھٰذا ماعندی وھوتعالٰی اعلم بالصواب۔
کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۳؍ ذی الحجہ ۱۳۸۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۴۳/۱۴۲/۱۴۱)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند