کیا انبیائے کرام سے گناہ کبیرہ کا صدور ہوا ہے؟
کیا کفار مکہ نے حضور کے جسم پر اوجھڑی ڈالا تھا؟
کیا قبل نبوت حضور کی نبوی زندگی نہ تھی؟
مسئلہ:
ازقطب الدین قادری زیتون پورہ مومن پورہ بھیونڈی ضلع تھانہ (مہاراشٹر)
(۱) زید خود کو عالم دین کہتا ہے‘ اور ایک مسجد کا خطیب و امام بھی ہے۔ اس نے کہا کہ انبیائے کرام سے گناہ کبیرہ کا صدور ہوا ہے‘ اور یہ بات اسلامی معتقدات کے عین مطابق ہے۔
(۲) تاریخ اسلام کی روایات میں ایک بات یہ ملتی ہے کہ کفار مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اذیتیں دیں ان میں آپ پر کوڑا کرکٹ ڈالنا‘ حالت نماز اوجھڑی ڈالنا بھی ثابت ہے مگر زید کہتا ہے کہ یہ سلوک عام مومنین کے ساتھ ہوا ہے۔
(۳) زید کہتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کی عمر میں منصب نبوت پر سرفراز ہوئے۔ دریافت طلب یہ امر ہے کہ ماقبل نبوت زندگی کیا نبوی زندگی نہ تھی۔ جبکہ اس سلسلے میں ایک حدیث بھی ہے کہ فرمایا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں اس وقت‘ نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام آب و گل کی منزلیں طے کر رہے تھے۔ براہ کرم ان سوالوں کے جواب قرآن و حدیث و سلف صالحین کے معتقدات کی روشنی میں دیں اور زید کی حیثیت و حکم شرعیہ سے آگاہ فرمائیں‘ اور بیشک اللہ ہی بہترین اجر دینے والا ہے حق واضح کرنے والوں کو۔
الجواب:
انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے گناہ کبیرہ کا صدور ہرگز نہیں ہوا کہ وہ سب معصوم ہیں ان سے گناہ کبیرہ کے صدور کو اسلامی معتقدات کے عین مطابق بتانا شریعت مطہرہ پر افتراء اور جھوٹ ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت ملا علی قاری علیہما الرحمتہ والرضوان تحریر فرماتے ہیں: الانبیاء علیھم السلام کلھم منزھون ای معصومون عن الصغائر والکبائر یعنی جملہ انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام صغیرہ اور کبیرہ سب گناہوں سے منزہ اور معصوم ہیں۔ (شرح فقہ اکبر ص ۶۸)
اور حضرت علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: الانبیاء معصومون یعنی انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام معصوم ہیں (شرح عقائد نسفی) اور علامہ صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے‘ اور عصمت انبیاء کے یہ معنی ہیں کہ ان کے لئے حفظ الٰہی کا وعدہ ہو جس کے سبب ان سے صدور گناہ محال ہے۔ انبیاء علیہم السلام شرک وکفر اور ہر ایسے امر سے جو خلق کے لئے باعث نفرت ہو جیسے کذب و خیانت اور جہل وغیرہ صفات ذمیمہ‘ نیز ایسے افعال سے جو وجاہت اور مروت کے خلاف ہیں قبل نبوت اور بعد نبوت بالاجماع معصوم ہیں اور کبائرے بھی مطلقاً معصوم ہیں اور حق یہ ہے کہ تعمدًاصغائر سے بھی قبل نبوت اور بعد نبوت معصوم ہیں۔ انتہیٰ ملخصًا
(بہار شریعت حصہ اوّل ص ۱۴)
اور اسی حصہ کے ص ۲۲- ۲۳ پر تحریر فرماتے ہیں: ’’انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے جو لغزشیں واقع ہوئیں ان کا ذکر تلاوت قرآن اور روایت حدیث کے سوا حرام اور سخت حرام ہے۔ انتہیٰ بحروفہ۔ لہٰذا زید پر علانیہ توبہ واستغفار کرنا لازم ہے اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کو امامت سے معزول کر دیں اس کے پیچھے نماز ہرگز نہ پڑھیں۔
وھو تعالٰی اعلم بالصواب۔
(۲)
کفار مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اذیتیں پہنچائیں ان میں بحالت نماز جسم اقدس پر اوجھڑی ڈالنا حدیث شریف سے ثابت ہے جیسا کہ بخاری شریف جلد اوّل ص ۴۵۲ میں ہے:
عن عبداللّٰہ قال بینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ساجد وحولہ ناس من قریش من المشرکین اذجاء عقبۃ بن ابی معیط بسلا جزور فقذ فہ علی ظھر النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم یرفع راسہ حتی جاء ت فاطمۃ فاخذت من ظھرہ ودعت علی من صنع لک
یعنی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت سجدہ میں تھے اور مشرکین قریش ان کے فریب میں تھے کہ عقبہ بن ابومعیط نے اوجھڑی لا کر حضور کی پیٹھ پر ڈال دی‘ تو حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں انہوں نے اوجھڑی کو آپ کی پشت مبارک سے ہٹا دیا اور اس کو برا بھلا کہا‘ اور عام مومنین پر کوڑا کرکٹ ڈالنے کا واقعہ کسی کتاب میں میری نگاہ سے نہیں گزرا۔
وھواعلم وعلمہ اتم۔
(۳)
چالیس (۴۰) سال کی عمر میں منصب نبوت پر سرفراز ہوئے اگر اس کا مطلب یہ ہے تو صحیح ہے کہ چالیس سال کی عمر میں تبلیغ کا حکم ہوا تو حضور نے اعلان نبوت فرمایا‘ اور اگر یہ مطلب ہے کہ چالیس سال کی عمر سے پہلے وہ نبی نہیں تھے اور اس سے پہلے کی زندگی نبوت کی زندگی نہ تھی تو غلط ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
عن العرباض بن ساریۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم انہ قال انی عبداللّٰہ مکتوب خاتم النبیین وان آدم المنجدل فی طینتہ
(مشکوٰۃ شریف ص ۵۱۳)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: ’’حاصل ایں معنی آنچہ مشہور ست برزبانہا بلفظ کنت نبیا وآدم بین الماء والطین ودررواتیے کتبت نبیا ازکتابت یعنی نوشتہ شدم من پیغمبر وحال اں کہ آدم میان آب و گل بود یعنی مخلوق نہ شدہ بود۔ایں جامی گویند کہ ازسبق نبوت آنحضرت چہ مراد ست اگر علم و تقدیر الٰہی ست نبوت ہمہ انبیاء شامل ست و اگر بالفعل ست آں خود دردنیا خواہد بود۔ جوابش آنست کہ مراد اظہار نبوت اوست صلی اللہ علیہ وسلم بیش از وجود عنصری ولے درملائکہ وارواح چنانکہ وارد شدہ است کتاب اسم شریف اوبر عرش و آسمانہا وقصور بہشت وغرفہ ہائے آں و برسینہ ہائے حور العین و برگہائے درختان جنت ودرخت طوبی و برار وہا وچشمہائے فرشتگان۔ وبعضے عرفاء گفتہ اند روح شریف وے صلی اللہ علیہ وسلم نبی بوددر عالم ارواح کہ تربیت ارواح می کرد۔ یعنی اس حدیث شریف کے معنی کا حاصل وہ ہے جو کنت نبیا و آدم بین الماء والطین کے لفظ سے لوگوں کے زبانوں پر مشہور ہے‘ اور ایک روایت میں کتبت نبیا ہے یعنی میں اس وقت نبی لکھا گیا جب حضرت آدم علیہ السلام آب و گل کے درمیان تھے۔ یعنی پیدا نہیں کئے گئے تھے۔ اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضور کے پہلے نبی ہونے کا کیا مطلب ہے؟ اگر یہ مطلب ہے کہ ان کانبی ہونا مقدر ہو چکا تھا اور وہ علم الٰہی میں پہلے سے نبی تھے تو ایسی نبوت تو تمام انبیائے کرام کو شامل ہے کہ ہر ایک کا نبی ہونا مقدر ہو چکا تھا‘ اور سب علم الٰہی میں پہلے ہی سے نبی تھے اور اگر بالفعل نبی ہی مراد ہے‘ تو دنیا ہی میں ہوں گے‘ تو اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ مطلب ملائکہ اور ارواح میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود عنصری سے پہلے ان کی نبوت کا ظاہر کرنا ہے جیسا کہ وارد ہے کہ عرش، ساتوں آسمان، جنت کے محلات اس کے دریچوں، حورالعین کے سینوں، جنت کے درختوں اور درخت طوبیٰ کے پتوں اور فرشتوں کی آنکھوں اور ان کے ابروئوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم شریف لکھا ہوا تھا‘ اور بعض بزرگان دین نے فرمایا کہ حضور کی روح شریف عالم ارواح میں نبی تھی جو ارواح کی تربیت کرتی تھی۔ (اشعۃ اللمعات جلد چہارم ص ۴۷۴)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے کہ قالوا یارسول اللّٰہ متی وجبت لک النبوۃ
(ای ثبت- مرقاۃ)
قال و اٰدم بین الروح والجسد ‘ یعنی صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول االلہ! آپ کے لیے نبوت کب ثابت ہوئی توحضور نے فرمایا آدم علیہ السلام جب روح اور جسم کے درمیان تھے۔
(مشکوٰۃ)
ثابت ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا ہونے سے پہلے ہی نبی تھے‘ اور ان کے نبی ہونے کو خداتعالیٰ نے عرش اعظم وغیرہ پر ان کا نام لکھ کر پہلے ہی ظاہر فرما دیا تھا۔ یہ تینوں سوال اگر ایک ہی شخص کے بارے میں ہیں تو وہ جاہل نہیں تو گمراہ ہے‘ اور گمراہ نہیں تو جاہل ہے۔
واللّٰہ تعالٰی اعلم بالصواب۔
کتبہ:
جلال الدین احمد الامجدی
۷؍ ربیع الاول ۱۴۰۰ھ
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۴/۱۳/۱۲)
ناشر:
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند