کیا انسانی دلوں میں انسانیت بیدار ہو گئی؟
(1)ممنوعہ جنگی ہتھیار رکھنے کی جھوٹی افواہ کی بنیاد پر امریکہ وبرطانیہ نے عراق پر حملہ کیا تھا اور قریبا دس لاکھ عراقی مارے گئے۔بعد میں امریکہ نے معافی مانگ لی کہ عراق میں کچھ نہیں ملا۔الغرض محض شک کی بنیاد پر عراق کو تباہ وبرباد کر دیا گیا اور دس لاکھ مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا،بعض رپورٹ کے مطابق بیس لاکھ مسلمانوں کو مارا گیا،اسی لاکھ مسلمان اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے،لیکن انسانیت بیدار نہیں ہوئی۔اسی طرح ملک شام،لیبیا،افغانستان میں بھی بے شمار مسلمان مارے گئے،لیکن دنیا تماشا دیکھتے رہی۔دنیا والوں کے دلوں میں انسانیت کا جذبہ بیدار نہیں ہوا۔
(2)اسرائیل کے قیام یعنی 1948 سے آج تک اسرائیل نے بے شمار فلسطینی مسلمانوں کو ہلاک اور تباہ وبرباد کیا۔ان کے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ان کے مکانات پر قبضہ کر لیا،یہودی لوگ فلسطینیوں پر مسلسل وحشیانہ مظالم ڈھاتے رہے،لیکن انسانیت بیدار نہیں ہوئی۔
(3)آج انسانیت بیدار کیسے ہو گئی؟
ابھی فلسطین میں عراق،لیبیا،شام وافغانستان کی طرح تباہی و بربادی نہیں ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق حالیہ اسرائیلی حملوں میں قریبا چودہ ہزار فلسطینی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔دس لاکھ،بیس لاکھ،پندرہ لاکھ انسانوں کی ہلاکت پر دنیا خاموش رہی،لیکن چودہ پندرہ ہزار ہلاکت ہوتے ہی دنیا کے بیشتر ممالک فلسطین کے ساتھ کھڑے ہیں۔دنیا کے مختلف ممالک میں جنگ بندی کی میٹنگیں ہو رہی ہیں۔اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ فلسطینی کمزور اور مظلوم ہیں،لہذا دنیا مظلوم وکمزور کے ساتھ کھڑی ہو رہی ہے،بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ فلسطین زبردست مقابلہ آرائی کر رہا ہے۔اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور جنگی ٹینکوں کو تباہ کر رہا ہے۔زمینی جنگ میں اسرائیل شکست کھا رہا ہے۔نیز اسرائیلی علاقوں پر سخت بمباری کے سبب اسرائیلی سپاہی مارےجا رہے ہیں اور اسرائیلی شہر تباہ وبرباد ہو رہے ہیں۔روئے زمین کی بدترین قوم یعنی یہودی اپنے گھروں اور شہروں کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ دنیا چڑھتے سورج کو سلام کرتی ہے۔خبر کے مطابق اسرائیل بھی وقتی جنگ بندی کے لیے راضی ہو چکا ہے۔جب کوئی قوم ظالموں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے اور ظالموں کو سخت ٹکر دیتی ہے،تب دنیا کے لوگ مظلوموں سے ہمدردی کا اظہار کرنے لگتے ہیں،کیوں کہ مظلوموں کی فتح یابی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔
آج کل امریکہ بھی نرم ہو چکا ہے۔مغربی ممالک سوچ رہے ہیں کہ دنیا والوں کو یہ کیسے بتایا جائے کہ مسٹر اسرائیل شکست کھا رہا ہے۔مغربی ملکوں نےاسرائیل کو مشرق وسطی کا سب سے طاقتور ملک بنانے کی کوشش کی تھی،تاکہ مشرق وسطی میں مغربی ممالک کی دادا گیری قائم رہے۔حماس نے مسٹر اسرائیل کا سینہ چھلنی کر دیا۔اب اسرائیل نیم غشی کی حالت میں باؤلے کتے کی طرح نہتے فلسطینی بچوں،عورتوں،بوڑھوں اور نہتے عوام پر حملہ کر رہا ہے۔
اگر غزہ پٹی پر اسرائیل کا قبضہ ہو چکا ہے تو غزہ پٹی سے اسرائیلی شہروں پر بمباری کیسے ہو رہی ہے۔غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کی لاشوں کے انبار کون لگا رہا ہے۔اسرائیلی ٹینک تباہ کیسے ہو رہے ہیں۔
(4)حالات سے بے خبر لوگ کہتے ہیں کہ حماس کی غلطی کے سبب اسرائیل نے غزہ پٹی پر حملہ کر دیا،حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل آئے دن فلسطینیوں کو ہلاک کرتا رہتا ہے۔جھوٹے الزام عائد کر کے فلسطینیوں کو اسرائیلی جیلوں میں ڈال دیتا ہے اور ان کو ایسی وحشیانہ سزائیں دیتا ہے کہ سن کر انسانوں کے کلیجے پھٹ جاتے ہیں۔فلسطینی بچوں کو ہلاک کرتا ہے۔فلسطینی عورتوں کی عصمت دری کرتا ہے۔الغرض یہودیوں کے شیطانی مظالم کی ایک طویل تاریخ ہے۔حماس نے جو کچھ کیا،وہ دفاعی عمل تھا،وہ اقدامی عمل نہیں تھا۔اگر آج بھی فلسطین قوت وطاقت سے مقابلہ نہ کرتا تو فلسطینیوں کی ہلاکت پر دنیا تالی بجاتی اور اسرائیل کو شاباشی دیتی کہ اسرائیل نے دہشت گردوں کو ختم کر دیا،لیکن حماس نے اسرائیل کو بدحواس کر دیا۔اب تو اندھ بھکتوں کے علاوہ کوئی بھی حماس کو دہشت گرد گروپ نہیں کہتا ہے۔
(5)بھارت نے فلسطینیوں کے لئے دو بار راحت کاری کے سامان بھیجے۔سلامتی کونسل میں بھی فلسطین کے حق میں ووٹ دیا۔یہ سب کچھ دیکھ کر اندھ بھکتوں کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی ہے۔اگر کوئی اندھ بھکت انڈیا کی فلسطین حمایت کے سبب خود کشی کرتا ہے تو ان شاء اللہ تعالی اس کی خبر دی جائے گی۔ابھی صرف ان کے نیم پاگل ہونے کی خبریں گشت کر رہی ہیں۔
طارق انور مصباحی
جاری کردہ:22:نومبر 2023