کیا حالت حمل میں طلاق واقع ہو جاتی ہے؟کیا غصہ میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟غیر مقلد کے فتوی پر عمل کرنا عند الشرع حرام ہے

کیا حالت حمل میں طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
کیا غصہ میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟
غیر مقلد کے فتوی پر عمل کرنا عند الشرع حرام ہے

مسئلہ: از شمس اللہ موضع بہوا پوسٹ بیروا ضلع بستی
اول(۱) زید نے اپنی بیوی ہندہ کو غصہ میں بحالت حمل لاعلمی کی بناء پر ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں لکھ کر ہندہ کے پاس بذریعہ ڈاک روانہ کر دیں۔ ڈیڑھ سال کے بعد اب دونوں بے حد پشیمان ہیں اور ایک ساتھ رہنے کے لئے راضی ہیں۔ کیا صورت اختیار کریں جس سے دونوں ساتھ رہنے لگیں؟
دوم(۲) مندرجہ ذیل جواب پر ازروئے شرع عمل کرنا کیسا ہے؟
الجواب: بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کوئی آدمی اپنی بیوی سے خوش ہو کر طلاق نہیں دیتا ہر آدمی غصہ ہی کی حالت میں طلاق دیتا ہے اس لئے یہ کہنا کہ غصہ میں دی غلط ہے۔ لاعلمی کیا تھی کیا اسے اتنا نہیں معلوم تھا کہ اگر میں اپنی بیوی کو طلاق دوں گا تو مجھ سے جدا ہو جائے گی۔ یہ سب بیکار کا عذر ہے طلاق ہو جانے کے بعد اب اس کی تاویلیں کی جا رہی ہیں زید نے حالت حمل میں اپنی بیوی کوطلاق دی ہے اس لئے اس کی عدت وضع حمل تھی جب اس کی بیوی کے ہاں پیدائش ہو گئی تو رجعت کا حق بھی ختم ہو گیا لیکن ایک وقت کی تین طلاقوں سے حدیث صحیحہ کے رو سے ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے اور طلاق رجعی میں عدت ختم ہو جانے کے بعد اگر شوہر اپنی بیوی کو رکھنا چاہے تو قرآن پاک کی آیت: ’’’وَاِذَ اطَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْسَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ‘‘
کی رو سے نیا نکاح کر کے اس کو اپنی زوجیت میں رکھ سکتا ہے چونکہ زید کی بیوی کی عدت ختم ہو چکی ہے اس لئے بیوی کی رضامندی کی صورت میں زید بھی نیا نکاح کر کے اس کو اپنی زوجیت میں رکھ سکتا ہے۔ ھٰذا ماعندی واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم۔

حررہ محمد ادریس آزاد رحمانی
مرکزی دارالعلوم دارالافتا بنارس

الجواب: (۱) صورت مستفسرہ میں زید کی بیوی ہندہ پر تین طلاقیں واقع ہو گئیں کہ بحالت حمل اور غصہ میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے بلکہ اکثر طلاق غصہ ہی میں دی جاتی ہے اور وقوع طلاق کے بارے میں لاعلمی شرعاً مسموع نہیں۔ ہندہ پر طلاق مغلظہ واقع ہو گئی اب بغیر حلالہ زید کے لئے حلال نہیں۔
قال اللّٰہ تعالٰی: فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہٗ مِنْم بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗط (پارہ دوم رکوع ۱۳)
دوم(۲) آزاد کا جواب فتویٰ نہیں ہے بلکہ گمراہ گری ہے اس پر عمل کرنا حرام ہے۔ فتاویٰ رضویہ جلد پنجم ص ۴۲۹ میں ہے کہ ’’ایک جلسہ میں تین طلاقیں ہو جانے پر جمہور صحابہ وتابعین و ائمہ اربعہ رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے‘ اور امام اجل ابوزکریا نووی شافعی شرح مسلم شریف جلد اوّل ص ۴۷۸ میں تحریر فرماتے ہیں
قال الشافعی ومالک وابو حنیفۃ واحمد وجماھیر العلماء من السلف والخلف یقع الثلاث ا ھ۔
یعنی امام شافعی، امام مالک، امام اعظم، ابوحنیفہ امام احمد اور جمہور علمائے سلف و خلف کا یہی مذہب ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں اور فتح القدیر جلد ثالث ص ۳۳۰ میں ہے:
ذھب جمھور صحابہ والتابعین ومن بعد ھم من ائمۃ المسلمین الی انہ یقع الثلاث ومن الادلۃ فی ذلک مافی مصنف ابن ابی شیبۃ والدارقطنی فی حدیث ابن عمر قالت یارسول اللہ رآیت لوطلقھا ثلاثا قال اذا قد عصیت ربک وبانت منک امراتک۔ وفی سنن ابی داؤد عن مجاھد قال کنت عند ابن عباس فجاء ہ رجل فقال انہ طلق امراتہ ثلاثا قال فسکت حتی ظننت انہ رادھا الیہ ثم قال ایطلق اخذکم فیرکب الحموقۃ ثم یقول یا ابن عباس یا ابن عباس فان اللّٰہ عزوجل قال ومن یتق اللّٰہ یجعل لہ مخرجًا عصیت ربکوبانت ملک امراتک۔ وفی المؤطا مالک بلغوٗ ان رجلا قال لعبد اللّٰہ بن عباس انٰی طلقت امرأت مائۃ تطلیقۃ فما ذاتریٰ۔ فقال ابن عباس طلقت منک ثلاثا وسبع وتسعون اتخذت بھا ایات اللہ ھزوا۔ وفی المؤطا ایضا بلغہ ان رجلا جاء الی ابن مسعود فقال انی طلقت امرأتی ثمانی تطلیقات فقال ماقیل لک فقال قیل لی بانت منک قال صدقوا۔ ھو مثل مایقولون وظاھرہ الاجماع علی ھٰذا الجواب۔
اسی طرح ایک مجلس میں تین طلاقیں واقع ہو جانے کی تائید میں صاحب فتح القدیر نے کئی حدیثوں کو نقل کرنے کے بعد آخر میں تحریر فرمایا۔
قد اتبتنا النقل عن اکثرھم صریحا بایقاع الثلث ولم یظھر لھم مخالف فما ذا بعد الحق الاالضلال وعن ھٰذا قلنا لوحکم حاکم بان الثلاث بفم واحد واحدۃ لم ینفذ حکمہ لانہ لایسوغ الاجتھاد فیہ فھو خلاف لااختلاف ا ھ۔
خلاصہ یہ کہ جمہور صحابہ کرام تابعین عظام اور ائمہ اسلام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس بات پر اجماع ہے کہ مجلس واحد میں دی ہوئی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوں گی وہابی کا فتویٰ غلط اور باطل ہے۔ اس پر عمل کرنا حرام و ناجائز ہے۔ وہابی اپنے عقائد کفریہ قطعیہ کے سبب کافر ہیں اور کفار سے شرعی فتویٰ حاصل کرنا حرام و گناہ کبیرہ ہے۔ ھٰذا ما عندی وھو تعالیٰ اعلم بالصواب۔

کتبہ: جلال الدین احمد الامجدی
۲۰؍ رجب المرجب ۱۳۹۸ھ؁
(فتاوی فیض الرسول،ج:۱،ص:۱۱۲/۱۱۱)
ناشر
جلال الدین احمد امجدی نعیمی ارشدی خادم جامعہ گلشن فاطمہ للبنات پیپل گاؤں نائیگاؤں ضلع ناندیڑ مہاراشٹر الھند

Share and Enjoy !

Shares
Scroll to Top